ColumnImtiaz Aasi

غزہ اور امت مسلمہ کی بے حسی

تحریر : امتیاز عاصی
نبی آخرالزمانؐ کا فرمان ہے مسلمان ایسے ہیں جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں آپس میں جڑی ہیں، مسیحیت کے بعد اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے، آج امت مسلمہ جس طرح روبہ زوال ہے امہ کو حضرت خالد بن ولیدؓ اور محمد بن قاسم جیسے سپہ سالاروں کی ضرورت ہے۔ عالم اسلام سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان حج کے موقع پر عرفات میں منعم حقیقی سے دعائیں اور مناجات کرتے ہیں۔ درحقیقت حج کا مقصد مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنا ،کفر، ظلم اور استکبار کے مقابلے میں متحد ہونا ہے۔ حج کا عظیم اجتماع امت مسلمہ کو استعماری قوتوں اور دنیا کے ظالموں کے خلاف صف آراء ہونے کا بھی درس دیتا ہے۔ ہر سال لاکھوں مسلمان دینا کے کونے کونے سے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ایک ہی لباس اور رنگ ونسل کا امتیاز کئے بغیر حق تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے امت کے کسی فرد پر مشکل گھڑی آتی ہے تو بجائے اس کے ساتھ باہم ملک کر صیہونی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے ہم آنکھیں چراتے دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا میں ستاون اسلامی ملک ہیں افسوسناک پہلو یہ ہے ان میں زیادہ تر یہود ونصاریٰ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ مسلمان قرآن پاک کی تلاوت اور ترجمہ پڑھتے کے باوجود عملی طور پر قرآنی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی اسلامی ملک ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اسلام دشمن قوتوں سے خائف ہیں کیوں کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے ۔ فلسطین کی نہتی خواتین اور بچے مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی لیکن امہ کی خاموشی پر حیرت ہوتی ہے ہم کیسے مسلمان ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے صف آراء نہیں ہو سکتے۔ سندھ کی بیٹی کی ایک پکار پر محمد بن قاسم کہاں سے سندھ چلے آئے تھے کیا امت مسلمہ بہری ہو چکی ہے یا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ مسلمان امریکہ کے کہنے پر جہاد کر سکتے ہیں جب کسی مسلمان ملک پر اسلام دشمن قوتیں صف آراء ہوں تو ہم جہاد کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتے ؟ غزہ کا مسئلہ آج کا
نہیں عشروں پہلے کا ہے جب 1967ء میں اسرائیل غزہ پر قابض ہو گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد پاس کی جس سے اسرائیل کی ناجائز ریاست کی بنیاد پڑی۔ چنانچہ اس طرح فلسطین کو دو حصوں میں منقسم کر دیا گیا جن میں ایک یہودی اور دوسری عرب ریاست قرار دے دی گئی۔ حال ہی میں مفتی اعظم جناب تقی عثمانی نے امت مسلمہ کو اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے۔ ہسپتالوں اور مساجد کی پروا کئے بغیر اسرائیلیوں نے جس بربریت کے مظاہر کئے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، مگر امت مسلمہ کا صیہونی قوتوں کے خلاف جہاد قرار دادوں تک محدود ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے بہت سی اسلامی تنظیمیں غزہ کے بھائیوں کی مدد کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی اسلامی جماعتوں میں جماعت اسلامی سرفہرست ہے جبکہ جے یو آئی بھی اپنے طور پر غز ہ کے مظلوم بھائیوں کی ہر طرح کی مدد کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ سوال ہے آخر غزہ کے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے وہ طریقہ کیوں اختیار نہیں کر سکتے جس کا ہمیں مذہب سے حکم دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر اسمبلی میں
اہل غزہ سے یکجہتی کی متفقہ طور پر قرار داد پاس کی ہے۔ سوال ہے کیا ہماری ان قراردادوں کا اسرائیل پر کوئی اثر پڑے گا۔ چلیں ہمیں اس بات کی خوشی ہے حکومت اور اپوزیشن کسی بات پر تو متفق ہوئے ہیں۔ بات عرب لیگ اور آو آئی سی کی قرار دادوں کی نہیں ہے امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت ہے آج دنیا کے تمام مسلمان امریکہ اور اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیں تو یہ بات یقینی ہے غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل مظالم بند کر دئیے۔ ملکوں کے اپنے اپنے مفادات امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں امریکہ کیسے
اپنے ہم مذاہب کی امداد کھل کر کرتا ہے ہم بد قسمت مسلمان ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ امت مسلمہ کی بدقسمتی اس سے زیادہ اور کیا ہوگی دنیا میں اسی لاکھ یہودی ہیں اور مسلمان کروڑوں میں ہونے کے باوجود یہود و نصاریٰ سے خائف ہیں۔ افسوس صد افسوس ہم نے قرآنی تعلیمات کو چھوڑ کر دنیاوی عیش وعشرت کو مطمع نظر بنا لیا ہے۔ یہ صیہونی طاقتوں کا کیا دھرا ہے مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایران یمن سے لڑ رہا ہے عراق اور شام کا حال سب کے سامنے ہے ۔ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کی پروا کئے بغیر بربریت کے مظاہر دیکھنے میں آئے امت کے لوگ ماسوائے تعزیتی قراردادوں کے آگے نہیں جا سکے۔ اسلام دشمن قوتوں کی یہی مکاری ہے وہ امت کو متحد نہیں
ہونے دیتے انہی کی سازشوں کا نتیجہ ہے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ ایران اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہے اسلام دشمن طاقتیں ایٹم بم بنا لیں کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا کوئی مسلمان ملک ایٹمی قوت بننے کی کوشش کرے تو اسلام دشمن قوتیں یکجا ہو جاتی ہیں۔ مسلمان ملکوں کو آپس میں ایک اتحاد قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اسی پلیٹ فارم سے تمام مسلمان ملک اپنے معاملات کو آگے بڑھائیں تو کوئی وجہ نہیں اسلام دشمن قوتیں کسی مسلمان ملک پر جارحیت کر سکیں۔ ہمیں عیش و عشرت کے خول سے نکلنا ہوگا اور اللہ کے دین کے فروغ کے لئے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف صف آراء ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں سے دوستی کا دم بھرتی ہیں اندرون خانے امت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں جماعت اسلامی نے غزہ کے مسلمان بھائیوں پر اسرائیلی ظلم کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ اب 27 اپریل کو مینار پاکستان میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی مشترکہ طورپر اسرائیلی بربرایت کے خلاف احتجاج کرے گی۔ مسلم دنیا کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، آج دنیا کے مسلمان اسرائیل کے خلاف صف آراء ہو جائیں تو اسلام دشمن قوتوں کو مسلمانوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہو۔

جواب دیں

Back to top button