Column

پولیو ایک معتدی اور لاعلاج مرض

ایم فاروق قمر

پولیو ایک انتہائی معتدی بیماری ہے۔ اس کا اصل نام پولیو مائیلائٹس ہے جو یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے لفظی معنی ’’ سرمئی گودے کی سوزش‘‘ کے ہیں۔ 1874ء میں جرمن معالج ایڈولف نے پہلی بار اسے استعمال کیا، کیو ں کہ یہ اعصابی ٹشوز کے سرمئی رنگ والے حصے پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس میں سوزش کردیتا ہے جو کہ فالج کا باعث بنتا ہے۔ اس کا پہلا نام انفنٹائل فالج اس بیماری کی پہلی طبی تفصیل 1879ء میں برطانوی معالج مائیکل انڈر ووڈ نے دی تھی، اور اسے 1840ء میں جاکوب ہائن نے ایک مخصوص جسمانی حالت کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ پولیو کی پہلی جدید وبائی بیماری صنعتی انقلاب کے بعد شہروں کے پھیلائو کے نتیجے میں سامنے آئی تھی اور یہ ایک غیر معمولی بیماری ثابت ہوئی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں پولیو صنعتی ممالک میں ایک ایسی بیماری کا نام تھا جس سے لوگ سب سے زیادہ خوف زدہ تھے۔ پولیو ہر سال لاکھوں بچوں کو معذور اور اپاہج بنا رہا تھا۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں پولیو کی موثر ویکسین کے متعارف ہونے کے بعد پولیو پر قابو پانا ممکن ہوا اور اس کے خاتمے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے سے صنعتی ممالک میں اس بیماری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں پولیو کو ایک اہم مسئلہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا۔ 1970ء کی دہائی میں لیمنس سروے سے معلوم ہوا کہ پولیو کی بیماری ترقی پذیر ممالک میں بھی موجود ہے۔ نتیجتاً، 1970ء کی دہائی میں ہی بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لئے قومی ویکسی نیشن کے ساتھ ساتھ معمول کی ویکسی نیشن کا آغاز کیا گیا تاکہ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں بھی اس بیماری پر قابو پایا جاسکے۔
1988ء میں جب پولیو کے خاتمے کے عالمی اقدام کا آغاز ہوا تو اس وقت پولیو ہر روز 1000بچوں کو مفلوج کر رہا تھا۔ اس وقت سے آج تک، پولیو کے کیسز میں 99فیصد تک کمی لائی جاچکی ہے اور 2.5بلین بچوں میں ویکسین کے ذریعے پولیو کے خلاف کامیاب مدافعت پیدا ہوچکی تھی۔
پولیو ویکسین پولیو وائرس سے لڑنے کے لیے بچوں کے جسم کی مدد کرتا ہے اور بچوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ویکسین کے صرف چند قطرے خوراک کے ذریعے سے لینے سے تقریبا تمام بچوں (100میں سے 99بچے) کو پولیو سے حفاظت یقینی ہوجاتی ہے۔
فعال پولیو وائرس ویکسین (IPV)اور زبانی پولیو وائرس ویکسین ( وپیوی): پولیو کی روک تھام کر سکتے ہیں ویکسین کی دو قسمیں ہیں۔ صرف IPV 2000کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا میں استعمال کیا گیا ہے۔ ویکسین اب بھی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے۔
پولیو اس وقت پاکستانی بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ جدید دنیا نے اس موذی بیماری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے لیکن پاکستان اور افغانستان ایسے دو ممالک ہیں جہاں پولیو کے کیس تسلسل سے نمودار ہو رہے ہیں۔ اس سال پاکستان میں سات پولیو کے کیس رپورٹ ہوئے، جن میں ایک پنجاب اور باقی دوسرے صوبوں میں ہوئے۔ پنجاب میں یہ پولیو وائرس کا کیس پنجاب میں منڈی بہائوالدین میں رپورٹ ہوا ہے اور باقی پاکستان کے دوسرے صوبے سندھ، خبیر پختونخوا اور بلوچستان میں ہیں۔
پولیو ایک لاعلاج مرض ہے، جس کی وجہ ایک خطرناک وائرس ہے جو نہایت کم وقت میں انسانی اعصابی نظام کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پولیو کا وائرس متاثرہ شخص کے فضلے میں پایا جاتا ہے۔ اور اس کا وائرس 24گھنٹے تک زندہ رہتا ہے ۔ پولیو وائرس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگوں میں عام طور پر یہ علامات نظر آئیں گی۔
گلے کی سوزش ،بخار ،تھکاوٹ، قے یا متلی،سردرد، پیٹ میں درد۔ یہ علامات عام طور پر 2سے 5دن کے بعد اپنے طور پر دور ہو جاتی ہیں۔ پولیو وائرس انفیکشن کے ساتھ لوگوں کے ایک چھوٹے تناسب کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے دوسرے وائرس زیادہ سنگین علامات کے ساتھ نظر آتا ہے۔ ان میں ایک ( پیروں میں سوئیاں کا احساس)
میننجائٹس ( ریڑھ کی ہڈی اور ؍ یا دماغ کے ڈھانپنے کی انفیکشن) پولیو کو بچوں کا فالج بھی کہا جاتا ہے۔ فالج پولیو وائرس دونوں بازو، ٹانگوں میں کمزوری یا فالج یہ مستقل معذوری اور موت کی بھی واقع ہوسکتی ہے کیونکہ پولیو کے ساتھ منسلک سب سے زیادہ شدید علامت یہی ہوتی ہے۔ دن کے اندر وائرس انھیں سانس لینے میں مشکل پیدا کر دیتا ہے اور پٹھوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ملک بھر میں پولیو کے خاتمے کے لئے اہم اقدامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پولیو ویکسین لگانے کے طریقہ کار کے متعلق منعقدہ اہم ورکشاپس کے ذریعے صحت کے عملے کی صلاحیت اور استعداد کو بڑھایا جائے۔ اس میں صحت لازمی ہے تا کہ مہمات کامیابی کے ساتھ چلائی جا سکیں۔ سروے سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ تجربہ کار ویکسنیڑز کی مراعات میں اضافہ کرنے سے براہ راست پولیو ویکسی نیشن کی کوریج میں بہتری آئی ہے۔ انتظامی ڈھانچے کو منظم کرنا اور فعال بنانا لازمی ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے ایک منظم منصوبہ بندی ہمیشہ پہلی ترجیح رہی ہے۔ پولیو یا اس جیسی دیگر بیماریوں کی ویکسینز کے سلسلے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کر دے کہ یہ مضر صحت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی ناپاک چیز ملی ہے تو ان کا پلانا جائز ہے، لہذا اس سلسلے میں دین دار ماہر ڈاکٹروں کی تصدیقات کی طرف رجوع کیا جائے۔ پولیو ورکر ہمارے ہیرو ہیں ، ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں اور تعاون کریں آپ کے تعاون کے بغیر اس بیماری کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ لہذا پولیو کا خاتمہ اور پولیو سے پاک پاکستان بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

جواب دیں

Back to top button