ColumnRoshan Lal

کینسر کئیر ہسپتال ، ایک قابل تحسین علاج گاہ

روشن لعل
شاہ صاحب کے مطابق انہوں نے ’’ کینسر کیئر ہسپتال‘‘ کو ایک ایسی حیرت انگیز علاج گاہ پایا جسے شروع کرنے اور چلانے والے لوگ انسانوں کے روپ میں فرشتوں سے بھی ایک قدم آگے ہیں۔ شاہ سے مراد ، ملک کے سینئر ترین صحافیوں کی صف میں کھڑے سید ممتاز احمد ہے جنہیں ان کے کام، رویے اور مزاج کی وجہ سے ایسے لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے روشن خیالی ، جمہوریت پسندی اور انسان دوستی کو ہمیشہ اپنا شعار بنایا ۔ اس شفیق انسان کے متعلق جب یہ سنا کہ وہ گلے کے کینسر میں مبتلا ہیں تو فوراً برادر جبار ناصر کے ساتھ ان کی مزاج پرسی کا پروگرام بنایا۔ شاہ صاحب سے ملنے کے بعد ذرا بھی یہ احساس نہیں ہو ا کہ وہ ایسے موذی مرض کا شکار ہیں جس کا نام سن کر ہی لوگوں پر خوف طاری ہو جاتا ہے۔ کینسر کی تشخیص کے بعد بھی شاہ صاحب کی زندہ دلی اور بھر پور انداز میں زندگی گزارنے کا جذبہ حسب سابق تھا۔ کینسر کے ظاہر ہو چکے اثرات کی وجہ سے شاہ صاحب کے لیے آسانی سے بات کرنا ممکن نہیں تھا ، ایسی حالت میں انہوں نے اپنے مرض اور کیفیت کے متعلق کچھ کہنے کی بجائے زیادہ باتیں اس کینسر کیئر ہسپتال کے متعلق کیں جہاں ان کا علاج چل رہا ہے۔ کینسر کیئر ہسپتال کے متعلق باتیں کرتے ہوئے شاہ صاحب نے کہا کہ ان کے سمیت میڈیا سے وابستہ اکثر لوگوں نے اس ہسپتال اور اس سے وابستہ لوگوں کی خدمات اور کردار کو اس طرح اجاگر نہیں کیا جو ان کا حق ہے، یہ کہتے ہوئے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ اس ہسپتال پر کچھ لکھا جانا چاہیے۔ راقم نے ان سے کینسر کیئر ہسپتال کے متعلق جو کچھ سنا اسے ان کی خواہش کے مطابق ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
کینسر کیئر ہسپتال اینڈ ریسرج سینٹر 27ایکڑ رقبے پر محیط اور فی الحال سو بیڈز پر مشتمل ہے جس میں مزید تین سو بیڈز کے اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ اس ہسپتال کے دروازے، ز رنگ ، نسل ، مذہب اور امیر و غریب کی تفریق کیے بغیر بلامعاوضہ ہر کینسر کے مریض کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ کینسر کے علاج کے لیے پاکستان کے جس ہسپتال کی مشہوری پوری دنیا میں کی گئی ، اس کے سو میں سے صرف بیس بیڈ بلا معاوضہ علاج اور مخصوص عمر کے مریضوں کے لیے مختص ہیں جبکہ80بیڈ ان مریضوں کے لیے ہیں جو کینسر کا مہنگا علاج اپنی جیب سے کروا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس کینسر کیر ہسپتال میں مرض کی سٹیج ، مریض کی عمر اور مالی حیثیت جیسی باتوں کو بالائے طاق رکھ کر کینسر کے مرض میں مبتلا ہر قسم کے مریض کو بلامعاوضہ علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
کینسر کیئر ہسپتال کو شروع کرنے والوں اور وہاں علاج کرنے والے طبی عملہ میں دکھی انسانیت کے لیے خدمت کے جذبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس ہسپتال کی زیر تعمیر عمارت کو ہی کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ کینسر کیئر ہسپتال کی زیر تعمیر عمارت کو سب سے پہلے بریسٹ کینسر میں مبتلا خواتین کے علاج کے لیے استعمال میں لایا گیا۔ عورتوں میں چھاتی کے کینسر کی ابتدائی تشخیص اور علاج کی بنیاد ایک خاص ٹیسٹ میمو گرافی ہے۔ کینسر کیئر ہسپتال کی عمارت مکمل ہونے سے پہلے ہی وہاں میمو گرافی ٹیسٹ کی مفت سہولت فراہم کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر مالیت کی تین جدید ترین مشینیں اٹلی سے درآمد کی گئیں۔ ان تین مشینوں میں سے ایک ہسپتال کے اندر اور دو خاص طور پر بنائے گئے موبائل کنٹینروں میں نصبکر کے ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں کی طرف روانہ کیا جاتا رہا۔ کینسر کیئر ہسپتال کی تعمیر سے پہلے ہی چھاتی کے سرطان سے آگاہی اور علاج کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران میمو گرافی مشینوں سے لیس موبائل کنٹینروں پر موجود عملہ جنڈ، کرک، لکی مروت، بہاولپور، احمدپور شرقیہ، صادق آباد، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، کوٹ ادو، مظفر گڑھ، جنگ اور سکھر جیسے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں جا کر وہاں کی عام عورتوں کو ٹیسٹ اور علاج کی سہولتیں اور معلومات فراہم فراہم کر تا رہا۔ کینسر کیئر ہسپتال کی عمارت کی تکمیل سے قبل ہزاروں خواتین کی مفت میمو گرافی اور الٹرا سائونڈ ٹیسٹ کر کے مرض میں مبتلا خواتین کو محترمہ عریشہ زمان کی سرکردگی میں چلنے والے اس ریڈی ایشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے علاج کی سہولتیں فراہم کی گئیں جو ہسپتال کی مرکزی عمارت کی تکمیل سے پہلے ہی تعمیر کر لیا گیا تھا۔ ان ٹیسٹوں کے ذریعے جن خواتین میں مختلف سٹیج کے کینسر کی تشخیص ہوئی ان میں سے ہزاروں کو ہر طرح سے بلامعاوضہ علاج کی سہولتیں فراہم کی گئی ۔ ایسی خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص اور مفت علاج کے لیے ہسپتال نے کئی ملین ڈالر خر چ کیے۔
کینسر کئیر ہسپتال کی تعمیر اور وہاں مفت علاج کی فراہمی کا خواب دیکھنے والے فرشتہ صفت انسان کا نام ڈاکٹر شہر یار ہے۔ ڈاکٹر شہر یار اور ان کی مخلص ٹیم کے جذبے اور اس جذبے پر مخیر حضرات کے اعتماد نے کینسر کیئر ہسپتال کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ۔ ڈاکٹر شہر یار اور ان کی ٹیم پر مخیر حضرات کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ کئی بنک، کمپنیاں اور ملکی و غیر ملکی صنعتی اداروں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پہلے ہسپتال کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا اور اب وہاں مفت علاج کی سہولت کو ممکن بنانے کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔ کینسر کیئر ہسپتال کی تعمیر میں جن اداروں اور لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے ان کے جذبے کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ ہسپتال انسانیت کی خدمت کا اتنا بڑا پراجیکٹ ہے جسے صرف طبی عملے کے خدمت کے جذبے کی بنیاد پر نہیں چلایا جاسکتا۔ اس ہسپتال کو چلانے کے لیے طبی عملے کے جذبے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی مسلسل مالی معاونت انتہائی ضروری ہے۔ ہسپتال میں مفت علاج کی فراہمی کے لیے جو مسلسل مالی معاونت درکار ہے اس کی نہ تو کم از کم اور نہ ہی کوئی زیادہ سے زیادہ کوئی حد ہے۔ ہسپتال کی ویب سائٹ پر وہ تمام معلومات موجود ہیں جن کے مطابق مختلف بنکوں کے ذریعے اور براہ راست بھی عطیات فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر شہر یار اور ان کی ٹیم کے لوگ کسی مہنگی تشہیری مہم کے ذریعے عطیات اکٹھے کرنے پر یقین نہیں رکھتے ، ان لوگوں کا ماننا ہے کہ کسی بڑے سلیبرٹی کو برانڈایمبیسڈر بنانے کے لیے عطیات میں ملنے والی رقم صرف کرنے کی بجائے اسے ہسپتال کی تعمیر اور مریضوں کے علاج پر خرچ کیا جانازیادہ ضروری ہے۔ اسی لیے کینسر کیئر ہسپتال کی تعمیر کے لیے عطیات کی درخواست انتہائی سادہ اور بہت کم خرچ سے تیار کیے گئے اشتہاری مواد کے ذریعے کی جاتی ہے۔
کینسر کیئر ہسپتال کو تعمیر کرنے والوں کے احساسات اور جذبات کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ یہاں لاعلاج تصور کئے جانے والے مریضوں کو بھی ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت سے سرشار ایسے جذبوں کو نئے لوگوں میں منتقل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کینسر کیئر ہسپتال کی کھلے دل کے ساتھ مالی معاونت کی جائے۔

جواب دیں

Back to top button