Column

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بل کی منظوری

تحریر: رفیع صحرائی
خبر ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بل کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے مطابق صوبہ بھر کی یونین کونسلز، ٹائون کمیٹیز، میونسپل کمیٹیز اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے انتخاب سالِ رواں میں ہی نومبر کے مہینے میں منعقد ہوں گے۔ بل کے مطابق ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے چیئرمین کے امیدوار کی تعلیم بی اے، وائس چیئرمین کے لیے ایف اے اور کونسلر کے لیے میٹرک پاس ہونا ضروری ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی امید تو بندھی ہے مگر جانے کیوں ابھی تک بے یقینی کی سی کیفیت ہے۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جو بلدیاتی نمائندوں سے محروم ہے۔ اس بل میں امیدواروں کے لیے تعلیم کی شرط خوش آئند ہے۔ پڑھی لکھی قیادت سلیقے سے اپنے فرائض سرانجام دے سکے گی۔ اسے اپنے اختیارات کا علم ہو گا۔ کسی بل یا منصوبے کی منظوری دیتے وقت یہ لوگ اس کو بلیک اینڈ وائٹ میں دیکھ کر اس پر بہتر طریقے سے بحث کر سکیں گے۔ انگوٹھا چھاپ نمائندگان بائو لوگوں سے اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی جمہوریت کی مضبوطی کا اندازہ لگانا ہو تو اس ملک کے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ادارے جمہوری معاشرے کی شان، جان، پہچان اور آن ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں جمہوریت اوجِ ثریا پر نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں باقاعدگی پائی جاتی ہے۔ ان کے جمہوری ادارے مکمل طور پر فعال اور بااختیار ہیں اور یہ ادارے مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی سے کوشاں رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں الٹی گنگا بہانے کا رواج ہے۔ ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ کے مصداق بلدیاتی اداروں کو سب سے زیادہ نقصان ہمارے سیاست دانوں اور جمہوری حکومتوں نے ہی پہنچایا ہے۔ وہ جنہیں ہم آمر کہتے ہیں ان کے ادوار میں جمہوری ادارے پھلے پھولے بھی اور فعال بھی رہے۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی بھی ہوئی اور ان سیاسی نرسریوں نے ملکی سیاست کو بہت سے سیاستدان بھی عطا کئے جن میں ایک بہت بڑا نام میاں منظور احمد وٹو کا بھی ہے جنہوں نے بی ڈی کونسلر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے منصبِ جلیلہ تک پہنچ گئے۔
ایوب خان کا بی ڈی نظام ہو یا جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی سسٹم ہوں۔ سبھی نے بلدیاتی اداروں کو فعال اور مضبوط کیا۔ ہمارے سیاست دانوں کے لیے بلدیاتی نظام ایک ناپسندیدہ سسٹم ہے۔ آپ مشہور سیاسی خانوادوں پر نظر ڈال لیں۔ وہ کسی نہ کسی طور ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کو وراثت میں زمین اور جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ملتی ہے۔ ان موروثی سیاست دانوں اور وڈیروں، جاگیرداروں کو بلدیاتی نظام وارا نہیں کھاتا۔ بلدیاتی نظام میں عام آدمی کو بھی آگے آنے کا موقع مل جاتا ہے جو اقتدار اور اختیارات پر قابض ان موروثی سیاست دانوں کو کسی صورت گوارا نہیں ہے۔
گزشتہ سال 2024ء میں یہ خبر تواتر کے ساتھ گردش کرتی رہی کہ پنجاب کے صوبائی وزیر بلدیات جناب ذیشان رفیق کی طرف سے ایک سمری تیار کر لی گئی ہے جو ماہِ جون2024ء میں اسمبلی سے پاس کروا لی جائے گی۔ اس سمری کے مطابق پنجاب میں یکم جولائی 2024ء سے 31دسمبر 2025ء تک اٹھارہ ماہ کے لیے بلدیاتی اداروں کو جنہیں عمران خان کے دور میں معطل کیا گیا تھا اپنی مدت پوری کرنے کے لیے بحال کر دیا جائے گا۔ عوام کی طرف سے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ کیونکہ صرف صوبہ پنجاب میں ہی بلدیاتی ادارے معطل ہیں اور پی ڈی ایم کی حکومت، نگران حکومت یا موجودہ جمہوری حکومت نے بلدیاتی اداروں کی بحالی یا نئے بلدیاتی انتخابات کروانے کی طرف پیش رفت نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال جنہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد ان دو صوبوں میں انتخابات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا وہ بھی بلدیاتی اداروں کی طرف سے غافل ہی رہے تھے۔ ایسے میں ان اداروں کی بحالی اور فعالیت کی خبر ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تھی مگر ابھی اس خبر کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیئے گئے اور بحالی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
اب ایک مرتبہ پھر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کی خبر دی گئی ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کا نتیجہ ہے۔ اللہ کرے یہ پیش رفت عملی جامہ پہننے کے مرحلے تک پہنچ جائے اور درمیان میں کوئی بہانہ بنا کر بلدیاتی انتخابات مزید سال دو سال کے لیے آگے نہ بڑھا دیئے جائیں۔

جواب دیں

Back to top button