
تحریر : سی ایم رضوان
اس وقت پنجاب سمیت کراچی کو ہیٹ ویو سے خطرات اور چنلنجز کا سامنا ہے۔ حسب روایت سکولوں پر پہلا اقدام کرتے ہوئے پی ڈی ایم اے پنجاب نے فوری طور پر سکولوں کے اوقات کار میں تبدیلی اور زیادہ گرمی کی صورت میں جلد موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان کرنے کے لئے محکمہ تعلیم کو مراسلہ جاری کر دیا ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ سکولوں کے اوقات کار میں رد و بدل اور زیادہ گرمی کی صورت میں جلد موسم گرما کی چھٹیوںکا اعلان کیا جائے۔ نیز شدید گرمی کے خدشات کے پیش نظر صوبہ بھر کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو بھی اسی نوعیت کی احتیاطی تدابیر کے لئے مراسلے جاری کئے گئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سکول اور کالجز میں بلا تعطل صاف اور ٹھنڈے پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے، بچوں کو واضح ہدایات کی جائیں کہ وہ ہلکے، ڈھیلے ڈھالے کپڑے استعمال کریں۔ دیگر سرکاری دفاتر اور نجی مراکز پر بھی حفاظتی اقدامات عائد کئے جانے کے امکانات ہیں۔
واضح رہے کہ جنوبی ایشیا میں ہیٹ ویوکے ساتھ پی ٹی آئی کی ڈھیٹ ویو بھی جاری ہے۔ یار لوگ تو اس سے کئی سال قبل ڈاکٹر اسرار کی پیشنگوئی سے ہی اس ویو سے متعلق ایمان لے آئے تھے مگر زیادہ تر لوگ اس ڈھیٹ ویو کا شکار ہو گئے اور درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بہرحال ڈھیٹ ویو حکومت بنی اور ٹوٹی اور باجوہ جی کو جمہوری کہنے والے جانور کہنا شروع ہو گئے۔ پھر حکومت بھی گئی اور اعتبار بھی گیا پھر انتخابات میں ہار بھی مل گئی پھر اس ڈھیٹ ویو میں ریکارڈ اضافہ سانحہ 9 مئی کی صورت میں سامنے آیا۔ تب اسٹیبلشمنٹ کو تو یہ علم تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت 9 مئی کو قوم کی طرف سے مسترد کر دیئے جانے کے بیانیے کو پوری ڈھٹائی سے فوج اور عوام کے درمیان خلیج کو بڑھانے کے لئے استعمال کرنے جا رہی تھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے یہ بیانیہ 8 فروری کو انتخابات کے موقع پر بھی لانچ کیا تھا۔ ان انتخابات سے صرف دو سال پہلے کے حالات کا اگر دیانتداری سے جائزہ پیش کیا جائے تو وہ یہی ہے کہ یہ بات پاکستان کے ہر باشعور فرد کی زبان پر تھی اور ہے کہ عوام تحریک انصاف کی پونے چار سالہ حکومت کو رد کر چکے تھے یعنی اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تخت سے اتار کر مظلوم نہ بنا دیا جاتا تو عوام خود ان کو دھکے دے کر باہر نکال دیتے۔ اوپر سے ظلم یہ ہوا کہ انہی لوگوں کو حکومت میں واپس لے آیا گیا جن کے بارے میں پہلے ہی پی ٹی آئی ٹرولز کی جانب سے ذہن سازی کی جا چکی تھی کہ یہ چور، لٹیرے، ڈاکو اور پتہ نہیں کیا کیا ہیں۔ ستم در ستم یہ کہ عدالتوں کے ذریعے بھی ان کے کیسز اور سزائیں ختم ہو گئیں۔ بالفرض اگر یہ سارا کچھ نہ ہوا ہوتا تو 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی بھی حالت وہی ہوتی جو مولانا فضل الرحمان کی ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی کو مینڈیٹ تو کیا ملتا، ان کی ضمانتیں تک ضبط ہو جاتیں اور یہ مقبولیت کھل کر دنیا کے سامنے آ جاتی جس کا آج تک صرف ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے حالانکہ عملاً صورت حال یہ ہے کہ جب سے یہ جھوٹا انقلابی جیل میں گیا ہے اس کے لئے چند ہزار تو کیا چند درجن لوگ بھی جان تلی پر رکھ کر سڑکوں پر نہیں آئے لیکن ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ بنا دیا گیا کہ گولی کیوں چلائی حالانکہ نہ گولی چلی اور نہ ہی کوئی ہلاک یا زخمی ہوا تھا۔ پھر گزشتہ دنوں جو علیمہ باجی نے جعلی دھرنے اور جعلی گرفتاری کی ننھی منی کوشش کی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب بھی ان کی ڈھیٹ ویو کا یہ عالم ہے کہ وہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ مقبولیت سے لے کر احتجاج تک اور فرمائشی ملاقاتوں سے لے کر جیل میں ملنے والی سہولیات تک ڈھٹائی کے ساتھ پروپیگنڈا کرنے اور پارٹی کے داخلی انتشار سے لے خارجی بہتان بازی تک ہر معاملے میں یہی ڈھیٹ ویو کار فرما ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کبھی بھی خود کو سنجیدہ سیاستدان ثابت ہی نہیں کر سکے۔ حکومت میں آنے کے بعد ٹیم بنائی تو کمزور پھر اگر کوئی پالیسی بنائی تو وہ بھی بے بنیاد۔ ایک طرف سیاست سے نابلد لوگ ساتھ چمٹا لئے۔ دوسرا مختلف جماعتوں سے اڑ کر آئے ہوئے پنچھی اپنے پروں کے نیچے جمع کر کے بیٹھ گئے اور لگے بے پر کی اڑانے، ظاہر ہے یہ اڑان کہاں تک جاری رہ سکتی تھی، نتیجتاً دھڑام سے گرے اور فضائی بلندیوں سے یکدم پاتال کی ناکامی مقدر بن گئی۔ اب جا کر ڈھٹائی میں تھوڑی سی کمی یہ آئی ہے کہ اب خود پی ٹی آئی کے بعض قدرے حقیقت پسند یا ٹھکرائے گئے ورکرز میڈیا پر آ کر یہ ماتم کر رہے ہیں کہ پارٹی کو دوسری سیاسی جماعتوں سے بھاگ کر آنے والے یا اپنے مفادات کے لئے کام کرنے والے ذیلی لیڈرز کی مشاورت سے چلایا جا رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ چھبیس ستائیس سال کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے بعد بھی اگر کوئی لیڈر اپنی پارٹی کے لئے کوئی نظریہ وضع نہ کر سکے یا کوئی نظریاتی لیڈر شپ پیدا نہ کر سکے اور دوسری پارٹیوں کے لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہے تو اس کو لیڈر کہنا مذاق اور ڈھٹائی نہیں تو اور کیا ہے۔
ظلم دیکھئے کہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بذات خود دوسری پارٹیوں کے تربیت یافتہ لیڈر ہیں۔ ظاہر ہے جس پارٹی کے پاس نظریہ ہی نہ ہو اور جو مذہب کو بھی ایک ٹچ کے طور پر استعمال کرے تو اس کا ورکر اور سپورٹر سوائے ایک معلق انتشار کے اور ڈھٹائی کے پیروکار کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جن دنوں تحریک انصاف بنائی جا رہی تھی اس وقت ایک ہی بات بانی پی ٹی آئی کی زبان پر تھی کہ وی آئی پی کلچر ختم کرنا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وی آئی پی لوگ پہلے سے زیادہ خود ان کے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں البتہ قومی اخلاقیات کا کلچر ختم ہو گیا اور تب سے لے کر اب صرف گالی گلوچ کی سیاست رہ گئی ہے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ووٹرز کو یہ بتایا گیا تھا کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کی بحالی ہمارا بنیادی منشور ہے، پھر یہ یقین بھی دلایا گیا کہ ملک میں موجود سیاست اور ملک کے نظام میں تبدیلی ہماری منزل ہے لیکن بعدازاں پتہ چلا کہ نہ کرپشن کا خاتمہ ہو سکا ہے اور نہ ہی انصاف بحال ہوا ہے۔ تبدیلی بھی آئی تو وہ والی نہیں جس کا جھانسہ عوام کو دیا گیا تھا بلکہ اپنے ورکرز کو پیچھے دھکیل کر پارٹی اور حکومت کی باگ ڈور فصلی بٹیروں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے حالانکہ حکومت کے دوران تحریک انصاف کے پاس پورا پورا وقت تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی تنظیم سازی کرتی اور ورکرز کی سیاسی و نظریاتی تربیت کرتی لیکن شہرت اور مقبولیت کے زعم نے ان کو اس حوالے سے کچھ نہ کرنے دیا۔ سارا زور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی ٹائیگرز بنانے اور ان ٹائیگرز کو لوگوں کی ایسی کی تیسی کرنے پر لگایا گیا۔ جب ایک سیاسی پارٹی کی لیڈر شپ کا ویژن ہی خود پسندی اور نرگسیت ہو گا تو اپنے آپ سے باہر نکل کر دیکھنے کی اہلیت کہاں سے آئے گی۔ ماضی قریب میں بانی پی ٹی آئی نے جس طرح خود کو پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں سے بچانے کے لئے بار بار عوام کو بلایا یا، الرٹ پہ رکھا یا پھر ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا۔ اس کی مثال ملکی سیاست میں نہیں ملتی۔
یہ بھی ایک مثال ہے کہ اپنے لیڈر کو گرفتاری سے بچانے کے لئے کارکنوں نے کیا کیا تکلیفیں نہیں سہیں؟ بانی کے گھر کے باہر پولیس اور کارکنوں کے درمیان کیا کچھ ہوتا رہا۔ پوری دنیا نے دیکھا اور پھر بالآخر 9 مئی کو وہ کچھ بھی ہو گیا جس نے ایک دفعہ تو اپنے ہی وطن کی سالمیت، وقار اور دفاع تک کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ 9 مئی کے واقعات تحریک انصاف کی پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کے نتیجے میں نہیں ہوئے پھر بھی پی ٹی آئی اس سانحے سے خود کو قیامت تک کے لئے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔
کیا اب یہ کسی سے ڈھکا چھپا رہ گیا ہے کہ پچھلے چھہتر سالوں سے ملک کو کس ڈیزائن پر چلایا گیا۔ بانی پی ٹی آئی تھوڑی سنجیدگی کا ثبوت دیتے تو پہلے ان سب حالات، سیاق و سباق، پس منظر، پیش منظر اور پس پردہ محرکات کو سمجھتے اور ملک کو ترقی و استحکام کے راستے پر لے کر چلنے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل بناتے تو آج ان کی بھی اہمیت ہوتی لیکن ان کے مشیروں میں سیاست کا کوئی مخلص اور دانا کھلاڑی ہوتا تو ان کو کوئی صائب مشورہ بھی دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج حالات یہ ہیں کہ خوش قسمتی سے آج کی سنجیدہ اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے بات کرنے کو تیار نہیں اور منتخب حکومت بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے کام سے فرصت نہیں پا رہی جو ان کے نخرے اٹھانے اور ان کی بے تکی فرمائشوں پر کان دھرے۔ اب صرف بانی کی ڈھیٹ ویو ہے یا پھر ملک کے طول و عرض میں در آنے والی ہیٹ ویو نے لوگوں کو دیگر مسائل اور چیلنجز میں مصروف کر دیا ہے۔