بجلی مزید سستی، گیس کی قیمت نہ بڑھائی جائے

گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کرتے ہوئے غریب عوام کو عظیم الشان ریلیف فراہم کیا تھا۔ اس فیصلے کو ہر جانب سے سراہا جارہا ہے۔ عوام اس اقدام پر خوشی سے نہال ہیں۔ حکومت نے اپنا وعدہ اور دعویٰ پورا کرکے دِکھایا۔ انتھک کاوشوں اور محنتوں کے طفیل عوامی ریلیف کا بندوبست کرنا چنداں آسان نہیں تھا۔ دیکھا جائے تو پچھلے 7 سال کے دوران غریبوں پر مہنگائی کے نشتر بُری طرح برستے رہے ہیں۔ ہر شے کے دام مائونٹ ایورسٹ سر کرچکے تھے۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں تین، چار گنا بڑھ گئیں۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستانی روپے کا بے توقیر اور بے وقعت ہونا تھا۔ ایشیا کی بہترین کرنسی کہلانے والا روپیہ پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا جارہا تھا۔ بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے جاری رہے، یوں ملک عزیز میں بجلی کے نرخ خطے میں سب سے بلند ترین سطح پر جاپہنچے۔ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے دام بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچے۔ گیس کے بلز چار، پانچ گنا بڑھ گئے۔ اب پھر سے گیس قیمت میں اضافے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں جب کہ بجلی مزید 1 روپیہ 71 پیسے سستی کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی سمیت ملک بھر کیلئے پٹرولیم لیوی کی مد میں بجلی سستی کرنے کی منظوری دے دی گئی، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی 1روپیہ 71 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کی حکومتی درخواست منظور کرلی۔ نیپرا نے بجلی سستی کرنے کا فیصلہ وفاقی حکومت کو بھجوا دیا، بجلی کی قیمت میں کمی کا اطلاق اپریل سے جون 2025 کیلئے ہوگا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ بجلی کی قیمت میں کمی کے الیکٹرک سمیت ملک بھر کے صارفین کیلئے ہوگی، بجلی کی قیمت میں کمی کا اطلاق لائف لائن صارفین پر نہیں ہوگا۔ وفاقی حکومت نے بجلی ایک روپیہ 71 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع کرائی تھی، نیپرا نے وفاقی حکومت کی درخواست پر 4 اپریل کو سماعت کی تھی۔ دوسری طرف بجلی کی پیداوار کے ٹیرف میں کمی کے لیے مزید 11 آئی پی پیز نے نیپرا سے رجوع کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نیپرا میں جمع کرائی گئی درخواست انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی مشترکہ ہے، جس میں بجلی ٹیرف میں کمی کے لیے درخواست دی گئی ہے۔ درخواست گزاروں میں بیگاس پر چلنے والے 9 پاور پلانٹ شامل ہیں، جن میں چنیوٹ پاور، جے ڈی ڈبلیو ملز یونٹ ٹو، یونٹ تھری، المعیز انڈسٹریز، چنار انرجی، تھل انڈسٹریز، حمزہ شوگر ملز، آر وائی کے ملز اور شاہ تاج شوگر ملز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت قائم ہونے والے دو آئی پی پیز، اٹک جین اور فائونڈیشن پاور کمپنی نے بھی نیپرا سے رجوع کیا ہے۔ دوسری جانب سوئی گیس کمپنیوں نے آئندہ مالی سال سے گیس مہنگی کرنے کی درخواست کردی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سوئی ناردرن نے گیس کی قیمت میں اوسطاً 735روپے 59پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو اور سوئی سدرن نے سابقہ شارٹ فال سمیت گیس کی قیمت میں 2443روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ مانگا ہے۔ اس کے علاوہ گیس کمپنیوں نے مالی سال 2025۔26کی مالی ضروریات کی درخواستیں بھی جمع کرائی ہیں۔ سوئی ناردرن نے 700ارب 97کروڑ روپے کی مالی ضروریات کی فراہمی اور 207ارب 43کروڑ 50لاکھ کا شارٹ فال وصول کرنے کی درخواست کی۔ اس کے ساتھ سوئی ناردرن نے گیس کی اوسط قیمت 2485روپے 72پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔ سوئی سدرن نے 883 ارب 54کروڑ 40لاکھ روپے کی مالی ضروریات اور 44ارب 33کروڑ 20لاکھ روپے کے شارٹ فال کی وصولی کی درخواست کی جب کہ سوئی سدرن نے گیس کی اوسط قیمت 4137روپے 49پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کرنے کی درخواست بھی کی۔ حکام کے مطابق سوئی ناردرن کی درخواست پر 18اور 28اپریل کو لاہور اور پشاور میں سماعتیں ہوں گی جب کہ سوئی سدرن کی درخواست پر 21اور 23اپریل کو کراچی اور کوئٹہ میں سماعتیں ہوں گی۔بجلی قیمت میں کمی خوش آئند ہے۔ اس سے خلقِ خدا کی بڑی تعداد مستفید ہوگی۔ حکومت کی جانب سے آئندہ وقتوں میں بجلی مزید سستی کرنے کے عندیے دیئے جارہے ہیں۔ ان شاء اللہ کچھ ہی عرصے میں بجلی کے نرخ معقول اور مناسب سطح پر آجائیں گے۔ حکومت اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ کوشاں ہے۔ دوسری جانب گیس کمپنیوں کی جانب سے گیس مہنگی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ عوام کے وسیع تر مفاد میں گیس کی قیمت بڑھانے سے گریز میں ہی بہتری ہے۔ عوام پہلے ہی خاصی مہنگی گیس استعمال کر رہے ہیں، قیمت مزید بڑھنے سے ان کی مشکلات مزید دوچند ہوجائیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ گیس کے نرخ نہ بڑھائے جائیں۔
غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش، 50 ہزار پاسپورٹ بلیک لسٹ
وطن عزیز سے بیشتر لوگ بیرونِ ملک جانے کے خواہاں اور اپنا اور اہل خانہ کا مستقبل سنوارنے کے متمنی ہیں۔ اس کے لیے وہ قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں، جن کا نصیب یاوری کرتا ہے، وہ قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بیرونِ ملک سدھار جاتے اور وہاں باعزت روزگار کماتے ہیں، اپنی خدمات کے ذریعے ملک و قوم کا نام روشن کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جو قانونی طور پر بیرون ملک جانے کا بندوبست نہ ہونے پر غیر قانونی راستہ اختیار کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ایسے بہت سے لوگ انسانی اسمگلرزکے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو انہیں بیرون ملک بھجوانے کے جھانسے دے کر منہ مانگی رقم اینٹھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں، جو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے دوران اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بہت سے خوش نصیب زندہ سلامت ملک اپنے پیاروں کے پاس واپس آجاتے ہیں۔ پاکستان آزاد ملک ہے اور یہاں کے ہر شہری کو آزادی کے ساتھ زیست گزارنے کی چھوٹ ہے، مگر ملکی قانون اور اصول و ضوابط کی پابندی ہر شہری پر فرض ہے، جو اس سے روگردانی کرتا ہے، یا اگر کوئی غیر قانونی کام کرتا یا خلاف قانون سرگرمی میں شمولیت کرتا ہے تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والے پاکستان کے 50 ہزار شہریوں کے پاسپورٹس بلیک لسٹ کئے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر داخلہ محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ وزارت داخلہ نے غیر قانونی طور پر ایران اور یورپ جانے کی کوشش کرنے والے 50 ہزار افراد کے پاسپورٹس بلیک لسٹ کر دیئے۔ محسن نقوی نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران تحریری جواب میں بتایا کہ ایران اور یورپ میں غیر قانونی داخلے کی کوشش کرنے والے 50 ہزار افراد کے پاسپورٹس بلیک لسٹ کئے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان افراد کے پاسپورٹس بلیک لسٹ کرنے کی سفارش ایف آئی اے بلوچستان نے کی تھی، ان افراد کے پاسپورٹ غیر قانونی داخلے، جعلی پاسپورٹ، فراڈ اور انسانی اسمگلنگ کے الزامات کے تحت بلیک لسٹ کئے گئے ہیں۔ محسن نقوی نے کہا کہ متعلقہ افراد بلیک لسٹ اپنے نام ہٹانے کے لیے ڈی جی پاسپورٹ کے پاس مروجہ طریقہ کار کے مطابق اپیل کر سکتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش جہاں زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، وہیں یہ خلاف قانون اقدام بھی ہے۔ ایسے 50 ہزار افراد کے پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنا صائب قدم ہے، کیونکہ یہ غیر قانونی کام کرکے پاکستان کی جگ ہنسائی کی وجہ بنے ہیں۔ شہریوں کو چاہیے کہ وہ خلاف قانون سرگرمیوں سے گریز کریں۔ قانونی طریقے سے اگر اُن کا بیرون ملک جانے کا بندوبست ہوسکتا ہے تو ٹھیک وگرنہ اس سے گریز میں ہی بہتری ہے۔ ایسے شہریوں کے لیے عرض ہے کہ اپنے ملک میں زیادہ بہتر اور باعزت روزگار کمایا جاسکتا ہے۔