کیا پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بننے جا رہا ہے؟

تحریر : رفیع صحرائی
یہ بیانیہ بڑی شدومد سے آج کل پھیلایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ شاید دو ماہ تک یہ فارورڈ بلاک کھل کر سامنے آ جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ ذرائع کے دعویٰ کے مطابق فارورڈ بلاک میں پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد شامل ہو گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں بھی اس سلسلے میں ہوم ورک مکمل ہو چکا ہے لیکن فی الحال سارا فوکس مرکز پر ہے۔ فارورڈ بلاک کی یہ خبر پاکستان پیپلز پارٹی کے حلقوں سے دی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر واقعی قومی اسمبلی میں فارورڈ بلاک کی تشکیل رو بہ عمل آتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کو ہی ہو گا۔ اسمبلی میں اس کی پوزیشن قدرے کمزور پڑ جائے گی۔ اس کی بارگیننگ ویلیو میں کمی آئے گی اور حکومت کو اس کی آئے روز بلیک میلنگ کی دھمکیوں سے نجات مل جائے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ ایک سال سے بڑی سمارٹ گیم کھیل رہی ہے۔ آصف علی زرداری بلاشبہ اس دور کے ذہین ترین سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری ان کی رہنمائی میں ایک منجھے ہوئے سیاست دان کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔
2024ء کے انتخابات میں باپ بیٹا دونوں ہی اپنے اپنے مقصد کے تحت اترے تھے۔ بلاول اپنے باپ کو صدرِ مملکت بنوانا چاہتے تھے اور آصف زرداری اپنے نوجوان بیٹے کو وزیرِ اعظم کے روپ میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ الیکشن کے بعد بلاول بھٹو کی خواہش تو پوری ہو گئی مگر آصف زرداری کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ الیکشن سے قبل کیے گئے معاہدے کے تحت دونوں جماعتوں میں سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن وزارتِ عظمیٰ کی حق دار ٹھہری جبکہ پیپلز پارٹی کو ملک کی صدارت مل گئی۔ مسلم لیگ ن نے آصف زرداری اور بلاول کو وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کر دی تھی مگر انہوں نے یہ پیشکش قبول نہیں کی کہ پارٹی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ گردن کے اوپر لٹکتی ہوئی کچے دھاگے سے بندھی تلوار کے مترادف تھی۔ انہوں نے ملکی صدارت کے علاوہ دو صوبوں کی گورنر شپ اور بہت سے سرکاری اداروں کی سربراہی لے لی تاہم وزارتوں کی پیشکش قبول نہیں کی۔ بلاول چاہیں تو آج بھی وزارتِ خارجہ ان کی منتظر ہے لیکن وہ حکومت کا حصہ نہ بن کر زیادہ فائدے میں ہیں۔ جب چاہتے ہیں حکومت کو ساتھ چھوڑنے کی تڑھی لگا کر کام نکلوا لیتے ہیں۔ اگر وہ ناکام ہوئے ہیں تو صرف پنجاب کی معاملے میں ہوئے ہیں۔ پنجاب میں اپنی پارٹی کے لیے وہ جو سپیس چاہتے ہیں وہ سپیس انہیں مل نہیں رہی۔ بلاول کو اس بات پر شدید غصہ ہے۔ مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی مرکز میں وزارتیں قبول کر کے کانٹوں کی تقسیم میں حصہ دار بھی بنے۔ اسے یقین ہے کہ حکومتی مدت پوری ہونے سے چند ماہ پہلے بلاول بھٹو آئندہ الیکشن کی کمپین کے لیے کوئی بہانہ بنا کر حکومت کی حمایت ختم کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں تاکہ الیکشن میں مضبوط بیانیہ بنایا جا سکے۔ بلاول بھٹو نے اپنے جثے کے مطابق حصہ وصول کر رکھا ہے مگر گاہے گاہے حکومت کو بلیک میل کرنے کے مواقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
2022، 2023اور 2024میں بجٹ کے مواقع پر انہوں نے حکومت کو پریشان کیا تھا۔ ہم ایک ماہ پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اس مرتبہ بھی بجٹ کے موقع پر بلاول حکومت کو پریشان کریں گے۔ حسبِ توقع انہوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ اب کے بہانہ نئی نہروں کی کھدائی کا بنایا گیا ہے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ نہروں کے معاملے پر زرداری اور بلاول کو اعتماد میں لے کر ان کی رضامندی حاصل کر لی گئی تھی لیکن سندھی قوم پرستوں کے احتجاج اور بیانیے کی وجہ سے انہوں نے اپنی حمایت واپس لے لی ہے۔ حکومت واضح کر چکی ہے کہ پیپلز پارٹی نے اگر مخالفت کی تو نہروں کے منصوبے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ بلاول نے اس کے باوجود حکومت سے بات کرنے کی بجائے بجٹ پاس نہ ہونے دینے کی دھمکی دے دی ہے۔ بلاول کا اصل مسئلہ پنجاب میں شیئر لینا ہے۔ مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اگر پنجاب میں حصہ چاہیے تو پیپلز ب ہیں کہ بلاول بھٹو کی روز روز کی بلیک میلنگ سے نمٹنے کا یہ بہترین حل ہے کہ پی ٹی آئی میں بڑے سائز کا فارورڈ بلاک بن جائے جو حکومت کی حمایت کرے۔ سنا ہے اس پر کافی حد تک ہوم ورک ہو چکا ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔ سیاستدانوں کا وفاداریاں تبدیل کرنا پاکستان میں عام سی بات ہے۔ ہماری تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی بے پناہ مقبولیت کے دعووں کے باوجود الیکٹیبلز کے ستونوں پر کھڑی ہیں۔ لگتا ہے کہ کوئی ایڈونچر کرنے یا سوچنے سے پہلے ہی بلاول بھٹو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیئے جائیں گے۔