پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ( ن) اور پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہیں

تحریر : امتیاز عاصی
کسی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت ان کے لیڈروں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ جن جماعتوں کے قائدین جبر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں ایسی جماعتوں کی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران میں سوسالہ شہنشایت، چلی میں فوجی حکومت کا بیس سالہ خاتمہ اور مصر کے حسنی مبارک کے اقتدار کی مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں۔ بالاآخر عوامی انقلاب جبر کے نظام کو ملیامیٹ کر گیا۔ پیپلز پارٹی نے عروج پایا جو ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا مرہون منت تھا۔ بھٹو کی بنائی ہوئی پیپلز پارٹی اپنے شہید چیئرمین کے نام پر ووٹ حاصل کر رہی ہے۔1988ء میں بھٹو کی ہونہار بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تو عوام نے ان کا تاریخی استقبال کیا۔ لیاقت باغ کے وسیع و عریض میدان میں محترمہ نے عوام کے جم غفیر سے خطاب کیا جو راولپنڈی کا تاریخی جلسہ تھا۔ گو بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی اپنے قائد سے محروم ہو گئی بے نظیر بھٹو نے چاروں صوبوں کے عوام کو جوڑے رکھا یہی وجہ تھی اس دور میں یہ نعرہ بڑا مقبول ہوا چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر جو ذوالفقار علی بھٹو سے غریب عوام کی محبت کا نتیجہ تھا۔ کوئی مانے نہ مانے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو غریب عوام کے دلوں میں آج بھی بستے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قیام سے قبل ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر خارجہ تھے۔ لاڑکانہ میں تعینات اس وقت کے اسٹنٹ کمشنر اور سابق وفاقی سیکرٹری لطف اللہ مفتی نے ہمیں بتایا وہ اس بات کے چشم دید ہیں بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ایک وقت آیا بھٹو نے وزارت چھوڑ دی اور پیپلز پارٹی کی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بنیاد رکھی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھٹو کی پارٹی روبہ زوال ہو گئی ۔پیپلز پارٹی جو کبھی چاروں صوبوں کی مقبول ترین جماعت تھی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کی باگ دوڑ ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کے حصے میں آئی وہ پارٹی کو چاروں صوبوں میں زندہ رکھنے میں ناکام رہے جو اس امر کا عکاس ہے سیاسی جماعتیں اپنے لیڈروں کی وجہ سے عوام میں زندہ رہتی ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کئی بار اقتدار میں رہ چکی ہیں دونوں جماعتوں کو 2018ء انتخابات میں عوام نے مسترد کرکے ایک نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مینڈیٹ دے دیا جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کے لئے بڑا دھچکا تھا۔ عوام نے عمران خان کو نجات دہندہ سمجھ کر ووٹ دیئے۔ بلاشبہ عمران خان کے اقتدار کی وجہ تسمیہ مقتدرہ تھی مقتدرہ نے ہاتھ اٹھا لیا جس کے بعد بانی پی ٹی آئی کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ دراصل عمران خان نے عوام میں احتساب کے نام پر مقبولیت حاصل کی۔ عوام دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کی مبینہ کرپشن سے عاجز تھے ۔ عمران خان نے احتساب کے نعرے کو خوب کیش کیا۔ بدقسمتی سے وہ اپنے اقتدار کے دوران عوام سے کیا جانے والا احتساب کا وعدہ پور انہیں کر سکا۔ یہ اور بات ہے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان نے احتساب میں ناکامی کا الزام طاقت ور حلقوں پر لگایا جنہوں نے انہیں احتساب کی بجائے کارکردگی ٹھیک کرنے کو کہا تھا۔ عمران خان نے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد اپوزیشن میں بیٹھنے کی بجائے مقتدرہ سے محاذ آرائی کا راستہ اپنا لیا جس نے عمران خان کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے تاہم وہ بہت کم عرصہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ جیل جانے کے بعد پے درپے واقعات اور مقدمات نے بانی پی ٹی آئی کو شہرت دوام دے دی۔ گزشتہ انتخابات میں چشم فلک نے دیکھا عمران خان کی جماعت کو عوام نے جو مینڈیٹ دیا اس نے بھٹو دور کی پیپلز پارٹی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے سیاسی جماعتوں کو جبر سے ختم نہیں کیا جا سکتا جس کی واضح مثال پیپلز پارٹی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اور ورکرز کو جیلوں میں رکھا انہیں کوڑوں کی سزائیں دیں مگر بھٹو کی پارٹی آج بھی زندہ ہے۔ گو بعض طالع آزمائوں نے مشکل وقت میں عمران خان کو چھوڑ دیا مگر ملک کے غریب عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔
تاریخ شاہد ہے جبر کا نظام دیرپا نہیں ہوتا جس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) اقتدار میں رہتے ہوئے عوام کا اعتماد بحال نہیں کر سکیں جس کا نتیجہ گزشتہ الیکشن میں دیکھ لیا ہے اس سے قبل ضمنی انتخابات میں پنجاب جسے مسلم لیگ اپنا گڑھ سمجھتی تھی پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ درحقیقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے اقتدار میں رہتے ہوئے عوامی مسائل کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے کر شہرت کو داغ دار کر لیا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے آئین میں ترامیم کرکے عدالتی نظام کو بجائے مضبوط کرنے کے مزید کمزور کر دیا۔ صرف ایک شخص کو جیل میں رکھنے کے لئے عدالتی نظام کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ تعجب ہے وکلاء برادری نے بھی آئینی ترامیم کے خلاف تحریک چلانے سے گریز کیا حالانکہ مشرف نے ججوں کو یرغمال بنایا تو وکلاء برادری کے ساتھ عوام نے ان کی رہائی کے لئے تاریخی احتجاج کیا جس کے بعد جنرل مشرف کو ججوں کو رہائی دنیا پڑی۔ حالیہ آئینی ترامیم کے خلاف وکلاء برادری کی خاموشی نے عوام کو مایوس کیا۔ عجیب تماشہ ہے عدالتی نظام کے ساتھ فوجی عدالتیں بھی کام کر رہی ہیں۔ افواج پاکستان ملکی سالمیت کی علامت ہیں سیاسی جماعتوں اور عوام کو ان کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے ناکہ سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خلاف جانوں کے نذرانے دینے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ کسی سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے حصول اقتدار کی خاطر انتخابات میں جو کچھ کیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے جسے عوام کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کرپشن کے مقدمات نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو عوام سے دور کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں الیکشن میں انہیں فارم 47کا سہارا لینا پڑا۔ اگرچہ بانی پی ٹی آئی قید و بند میں ہے تاہم اس کی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی، جب کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون عوام کی نظروں میں گر چکی ہیں۔