
تحریر : سی ایم رضوان
ایک معروف، خوش شکل، ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پاکستان کے سب سے بڑے عوامی لیڈر حال مقیم اڈیالہ جھینگا لالہ جھینگا لالہ۔۔ سے متعلق ان کے ایک دوست کی بات پر یقین کرنے کو ہمارا دل تو نہیں چاہتا۔ کوئی اور کر لے تو اس کی گور گردن پر کہتے ہیں کہ لو جی ’’ عمران خان توہم پرست ہو گئے تھے‘‘، قارئین یقین کیجیے یہ بات کوئی ن لیگی رہنما یا پی ٹی آئی کا مخالف نہیں کہہ رہا بلکہ یہ انکشاف پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ دلدادہ، معروف قانون دان اور ملک میں نواز شریف کے سب سے بڑے مخالف نعیم بخاری نے کیا ہے۔ تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان کی توہم پرستی کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ وہ یہاں تک کہتے تھے کہ آج کا دن، یہ راستہ اور فلاں کپڑے اچھے نہیں، صرف یہی نہیں اس پر نعیم بخاری نے ایک اور ستم ڈھاتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ مردم اور عورت شناس بھی نہیں ہیں، ایک تازہ پوڈ کاسٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس سینئر قانون دان نعیم بخاری نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکن اور عمران خان کو آج بھی پسند کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود جو سچ اور حق ہے وہ کہہ رہی ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان توہم پرست ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں عمران خان کا مشیر ہوتا تو مشورہ دیتا کہ انہیں القادر ٹرسٹ کی زمین کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہیے تھا۔ نعیم بخاری نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان مردوں کو پہچان سکتے ہیں اور نہ ہی عورتوں کو، وہ فواد چودھری کو کیسے منتخب اور بابر اعوان کو مشیر کیسے بنا سکتے ہیں؟۔ انہوں نے مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کا ملکیتی ہار آپ توشہ خانہ سے کیسے لے سکتے ہیں؟ بطور وزیراعظم کوئی پین یا پینسل بھی تحفہ ملے تو وہ ریاست کی ملکیت ہوتا ہے۔
نعیم بخاری نے مذاق مذاق میں جو لنکا ڈھائی ہے ہمیں تو اس سے ذرا بھر بھی دلچسپی نہیں۔ اس قدر اندھیر بھی ہو سکتا ہے کہ بانی کے دیرینہ اور قابل اعتماد دوست انہیں توہم پرست بھی کہہ دیں ان پر توشہ خانہ چوری کے الزامات کی بھی حمایت کر دیں اور 190ملین پائونڈ کیس کی قلعی بھی کھول دیں اور دبے لفظوں میں سابق خاتون اول کے انتخاب کو بھی بانی کی عورت ناشناسی قرار دے دیں۔ توبہ توبہ۔۔۔ ہم تو ان باتوں پر کان نہیں دھریں گے بلکہ ہم تو دور حاضر کے عظیم انقلابی سیاستدان شبلی فراز کی تازہ تسلی پر یقین لائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اس بطل حریت نے گزشتہ روز جو یہ خبر دی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی اسی وقت ہی ممکن ہو گی جبکہ یہ فیصلہ کر لیا جائے گا کہ ہم نے اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔۔۔۔ ظاہر ہے تبھی تو ملک آگے جائے گا جب ملک پر بانی پی ٹی آئی کی حکومت ہو گی۔ تب وہ جس ملک سے چاہیں گے ڈالر بھی منگوا لیں گے۔ امریکہ کو بھی کینڈے میں کر لیں گے ایران سے بھی دوستی کو تازہ کر لیں گے اور چین کو بھی اس کی حدود اور اوقات میں رکھنے کا بندوبست کر لیں گے۔ سعودی عرب کے حکمران تو گویا ان کے دیوانے ہیں۔ جس طرح کہ بڑے افسروں کی بیگمات ان کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ مذکورہ عظیم انقلابی شبلی فراز نے گزشتہ روز جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس سیاسی ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر، بس ویسے ہی ہمیں مصروف رکھنے کے لئے یہ کیس کیا گیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی سو فیصد متوقع اور برمحل تھا کہ ساری دنیا اور پاکستان کو پتا ہے کہ بانی پی آئی کو سیاسی بنیاد پر قید کیا گیا ہے لہٰذا جب یہ فیصلہ کر لیا جائے گا کہ ہم نے اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے، ہم نے اس ملک کو ترقی دینی ہے، ہم نے اس ملک کو اکٹھا رکھنا ہے تو لا محالہ بانی کو چھوڑنا پڑے گا۔ شاید شبلی فراز یہ کہہ رہے تھے کہ پھر کسی عدالت کے فیصلے یا کسی الزام کی تحقیق و تفتیش کی بھی ضرورت نہیں ہو گی اور بانی کو رہا کر دیا جائے گا۔ تبھی تو ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے آنے والی نسلوں کے لئے ایک مثبت پاکستان چھوڑ کے جانا ہے، یہ حکمران ٹولہ جس دن یہ فیصلہ کر لے گا کہ ہم نے یہ کرنا ہے تو بانی پی ٹی آئی رہا ہو جائیں گے۔ شبلی فراز نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا حالیہ حکومتی اعلان ویسے ہی جھوٹ موٹ میں عوام کو خوش رکھنے کی ایک ناکام کوشش ہے، انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ہم پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے اور ان کو ایکسپوز کریں گے۔ شبلی فراز نے فائنل دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جو پارٹی لیڈر شپ ہے وہ اس وقت اس پہ کام کر رہی ہے اور ہمارے فیصلے مکمل ہو گئے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اب اس حکومت کا جانا اور بانی پی ٹی آئی کا آنا طے ہو گیا ہے اور ظاہر ہے شبلی فراز ایک مرتبہ پھر کسی بڑی وفاقی وزارت پر براجمان ہوں گے۔ یہ یقینی طور پر ان کا حق ہو گا کیونکہ نہ تو وہ سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی طرح ہی ٹی آئی کو چھوڑ کر گئے ہیں اور نہ ہی فواد چودھری کی طرح جہانگیر ترین کی پارٹی میں شامل ہو کر بعد ازاں مایوسی کے عالم میں واپس پلٹے ہیں بلکہ وہ بانی کی سوچ اور ویژن کے عین مطابق وہی باتیں کر رہے ہیں جو پہلے دن کرتے تھے۔ وہ فردوس عاشق اعوان کی طرح پارٹی کو اور بانی کو ایک دن بھی چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ پارٹی پالیسی کے مطابق ہنوز اپنے کارکنوں کو سبز ہی نہیں بلکہ سرسبز باغ مسلسل دکھا رہے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں ان کی پارٹی کے احتجاجی پٹھانوں نے اسلام آباد کے سرسبز درختوں کو بھی آگ دکھا دی تھی۔
بات ہو رہی تھی شبلی فراز کے خوش کن خوابوں کی بلکہ پوری پی ٹی آئی کے من چاہے خوابوں کی۔ یاد رہے کہ خوابوں کی اس کہانی میں ایک دلچسپ موڑ اس وقت بھی آیا تھا جب پی ٹی آئی نے اپنی ساری امیدیں ڈونلڈ ٹرمپ کے کندھوں پر لاد دی تھیں۔
اسی امید میں بانی پی ٹی آئی نے فارن کمیٹی کو تحلیل کرنے کے بعد ایک نئی پالیسی کا بھی اعلان کر دیا تھا اور یہ انقلابی نعرہ بھی لگا دیا تھا کہ اب سے ہم صرف ان عالمی رہنماں کے ساتھ چلیں گے جو حقیقی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس فہرست میں جن عظیم عالمی شخصیات کے نام لئے گئے تھے، ان میں ترک ڈراموں کے سلطان سلیمان، ارطغرل غازی اور بلیک پینتھر فلم کا بادشاہ ٹی والا شامل تھے۔ اسی سلسلے میں سابق خاتونِ اول نے مشورہ دیا تھا کہ ’’ خان جی، صبر کریں، ابھی اللہ کی طرف سے کوئی اور مدد آئے گی‘‘۔ تب سابق خاتون اول کی پیشین گوئیاں اتنی سرعتِ سے پوری نہیں ہوتی تھیں مگر پھر بھی سابقہ فیض کی یاد میں یہ اعتبار کرنا پڑا۔ بس، یہ سننا تھا کہ خان نے فوراً آنکھیں بند کیں، مراقبے میں چلے گئے اور کچھ دیر بعد اعلان کر دیا کہ نئی تحریک شروع کریں گے، تحریکِ متوازی دنیا، یعنی پی ٹی آئی کے تمام انقلابیوں کا خیال تھا کہ جیسے ہی ٹرمپ امریکی صدر بن کر وائٹ ہاس میں سرخ ٹائی باندھ کر حلف اٹھانے کے لئے بیٹھے گا، تو حلف اٹھانے کے بعد پہلا کام وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا آرڈر جاری کرنے کا ہی کرے گا۔ ان دنوں پی ٹی آئی والوں نے اتنی امیدیں لگا رکھی تھیں کہ لگتا تھا کہ ٹرمپ واشنگٹن میں بانی پی ٹی آئی کے لئے استقبالیہ سٹیج تیار کر رہے ہیں لیکن بعدازاں وہ تمام امیدیں سسک سسک کر دم توڑ گئیں۔ پھر امید لگا لی فارن کمیٹی سے کہ دنیا بھر میں بانی کی رہائی کے لئے لابنگ کی جائے اور دنیا بھر سے عمران فین کلب سے ڈالرز اکٹھے کر کے سرمایہ کاری کی جائے۔ یہاں یاد رہے کہ جب ٹرمپ سے امید پوری نہ ہوئی، تو بانی کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے جیل سے پھر پیغام بھجوایا کہ، یہ فارن کمیٹی کیا کر رہی ہے؟ بس بیک گرائونڈ میں ’’ ہم دیکھیں گے‘‘ گا رہے ہیں؟ اور پھر ایک ہی جھٹکے میں فارن کمیٹی کو’’ فارن‘‘ کر دیا گیا۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کے اندر سے آوازیں آنے لگیں کہ’’ بھائی، ہم نے تو سمجھا تھا کہ ٹرمپ ہمارا بھائی ہے، لیکن لگتا ہے وہ ہمارا کزن بھی نہیں‘‘! ہاں جیل کے اندر بانی کا غصہ دیکھنے والوں نے بتایا کہ جب انہیں پتا چلا کہ ٹرمپ نے کوئی ایکشن نہیں لیا، تو انہوں نے چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑا اور بولے، یہ کیا مذاق ہے؟ میں یہاں جیل میں بیٹھا ہوں اور میری پارٹی والے ٹرمپ کے پیچھے لگے ہیں جیسے وہ کوئی جادو کی چھڑی لہرائے گا پھر غصے میں انہوں نے چائے کا کپ نیچے رکھا ( توڑا نہیں، کیونکہ وہ بڑے سمجھدار ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ جیل میں کپ توڑنے کی سزا الگ سے ملتی ہے) اور کہا، اب بس، فارن کمیٹی ختم۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو لگتا تھا کہ فارن کمیٹی والے بس زوم میٹنگز میں بیٹھ کر ٹرمپ آئے گا، ٹرمپ آئے گا کا راگ الاپ رہے تھے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ جب کمیٹی ختم ہو گئی، تو پی ٹی آئی کے کچھ کارکن کہہ رہے تھے۔ ’’ شاید اب ہمیں خود ہی جیل کے باہر دھرنا دینا پڑے، ٹرمپ تو اپنے گالف کورس میں مصروف ہے‘‘۔
اب ذرا ٹرمپ کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو وہ اپنے ’’ امریکہ فرسٹ‘‘ کے نعرے پر واپس آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے پہلے اپنے ملک کی دیواریں بلند کرنی ہیں، میکسیکو سے آنے والوں کو روکنا ہے اور چین سے لڑائی لڑنی ہے۔ اسے کیا پڑی ہے کہ وہ بانی کی رہائی کی سردرد پالے۔ ایک جلد باز، خود پرست اور توہم پرست لیڈر کے لئے۔