Column

بلوچستان: علیحدگی نہیں، حقوق کا حصول

رانا اقبال حسن
بلوچستان میں جاری بدامنی اور علیحدگی پسند عناصر کی کارروائیاں ایک عرصے سے پاکستان کے لیے سنگین چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ حالیہ واقعہ، جہاں جعفر ایکسپریس کو روک کر نہتے شہریوں کو اغوا اور قتل کیا گیا، اس مسئلے کے شدت اختیار کر جانے کا ثبوت ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی مسلح جدوجہد اور ریاستی ردعمل کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ صرف طاقت کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے سیاسی حکمتِ عملی، اعتماد کی بحالی، اور حقوق کی منصفانہ تقسیم ناگزیر ہے۔
بلوچستان کی شورش کی کئی وجوہات ہیں، جن میں تاریخی محرومیاں، وسائل پر اختیار کا تنازع، گورننس کی کمزوری ، اور بعض بیرونی عناصر کی مداخلت شامل ہیں۔ مقامی لوگوں کا احساسِ محرومی سب سے بڑا مسئلہ ہے، جو یہ تاثر دیتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل تو ملک کے دیگر حصوں کی ترقی میں استعمال ہو رہے ہیں، لیکن خود بلوچ عوام بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔
بلوچستان میں جاری بدامنی اور علیحدگی پسندی کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج بے مثال قربانیاں دے رہی ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا حالیہ بیان کہ ’’ ہمیں اب سافٹ سٹیٹ کی بجائے ہارڈ سٹیٹ بننا پڑے گا‘‘، دہائیوں پرانی انتظامی کمزوریوں پر تنقید ہے، جس کی وجہ سے آج لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سیاسی قیادت کی کمزوریوں کی وجہ سے فوج کب تک اپنے جوانوں کا خون بہاتی رہے گی؟، یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جس پر قومی قیادت کو سوچنا ہوگا۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف فوج، ایف سی اور دیگر سیکیورٹی ادارے مسلسل لڑ رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر سیکیورٹی اہلکار اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں تاکہ ریاست کی رٹ کو قائم رکھا جا سکے۔ تاہم، جب سیاسی قیادت کمزور ہو، فیصلے تاخیر کا شکار ہوں اور قومی یکجہتی کا فقدان ہو تو دہشت گردوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
پاکستان میں اس وقت بدقسمتی سے قومی یکجہتی کا شدید فقدان نظر آ رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال تحریک انصاف کی جانب سے قومی سلامتی کی حالیہ بیٹھک میں عدم شرکت ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک کو دہشت گردی، اندرونی انتشار اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے، اپوزیشن اور حکومت دونوں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کا معاملہ کسی ایک جماعت یا ادارے کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ اگر سیاستدان آپس میں متحد نہیں ہوں گے تو دشمن کو کمزوری کا پیغام جائے گا، جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔
پاک فوج نے واضح طور پر بھارت اور افغانستان پر بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ اور افغانستان میں موجود بعض گروہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر اندرونی سیاسی عدم استحکام برقرار رہا تو دشمن کی چالیں مزید کامیاب ہوں گی۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
1۔ سیاسی استحکام: تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی سلامتی کے معاملات پر متحد ہونا ہوگا۔
2۔ متفقہ قومی پالیسی: بلوچستان میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک جامع اور مستقل پالیسی بنائی جائے جو کسی بھی حکومت کے آنے جانے سے متاثر نہ ہو۔
3۔ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے: مقامی آبادی کے احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جائیں تاکہ علیحدگی پسندوں کی حمایت کم ہو سکے۔
4۔ سخت اور موثر سیکیورٹی اقدامات: دشمن کی مداخلت روکنے کے لیے سرحدی سیکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے اور دہشتگردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کو مزید موثر بنایا جائے۔
بلوچستان میں امن کا قیام فوج اور ریاستی اداروں کی قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں، لیکن یہ قربانیاں تبھی کامیاب ہوں گی جب پوری قوم اور بالخصوص سیاسی قیادت ایک صفحے پر ہو۔ دشمن کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنی اندرونی تقسیم ختم کرنا ہوگی، ورنہ ہم اپنی ہی کوتاہیوں کی قیمت چکاتے رہیں گے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم قومی مفاد کو ہر چیز پر مقدم رکھیں، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والی کارروائیوں کا موثر جواب دینا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محض طاقت کا استعمال مسئلے کو مزید الجھا دیتا ہے۔ بلوچستان کے قوم پرست رہنماں، علیحدگی پسند گروہوں، اور مقامی عمائدین کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیے جائیں۔ ماضی میں کامیاب ماڈلز جیسے بے نظیر بھٹو کی بلوچ علیحدگی پسندوں کے لئے عام معافی ، ان کا ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونا اور ان کی افغانستان سے واپسی سے سیکھا جائے اور مذاکرات کو نتیجہ خیز بنایا جائے۔
بلوچستان کے معاملے کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو نہ صرف مقامی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بلوچ علیحدگی پسندی کے معاملے پر سفارتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بیرونی عناصر کی مداخلت اور علیحدگی پسندوں کو ملنے والی مالی و عسکری مدد پر نظر رکھنا ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button