ColumnImtiaz Aasi

امتحانات اور ناجائز ذرائع کی روک تھام

امتیاز عاصی

ایک زمانے میں تعلیمی بورڈوں اور یونیورسٹیوں کے ملازمین طلبہ کے امتحانی پرچوں میں نمبر لگوانے ممتحن حضرات کے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ ایک طویل عرصے تک ناجائز ذرائع سے نمبر لگوانے کا سلسلہ چلتا رہا ۔ ایک دور ایسا آیا یونیورسٹی کے امتحانات کے پرچوں کا بنڈل امتحانی سینٹرز کے سپرنٹنڈنٹس سیل کرکے ریلوے اسٹیشن جا کر بک کراتے تھے۔ یار لوگوں نے نمبر لگوانے کا نیا طریقہ ایجاد کر لیا ریلوے بکنگ کلرک کی مبینہ ملی بھگت سے جوابی کاپیوں کے بنڈل واپس گھروں میں آجایا کرتے اور جن امیدواروں سے مبینہ طور پر مال پانی وصول کیا جاتا انہیں دوبارہ پرچے حل کرانے کے بعد جوابی کاپیوں کا بنڈل دوبارہ ریلوے بکنگ کلرک کے حوالے کر آتے تھے۔ جوابی کاپیوں کے بنڈل کو سیل کرنے کی مہر تو سپرنٹنڈنٹس کے پاس ہوا کرتی یار لوگ بنڈل کو دوبارہ سیل کرنے کے لئے تبت کریم کی بوتل کے ڈھکنے سے مہر لگا لیا کرتے تھے۔ تعلیمی بورڈوں نے ناجائز ذرائع سے نمبر لگوانے کا سلسلہ ختم کرنے کے لئے لوکل مارکنگ کا نظام متعارف کرایا جس میں ہر ممتحن کو چند پرچے جانچنے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ اس نظام کے تحت امتحانی پرچوں کو ممتحن کے گھروں میں نہیں بھیجا جاتا بلکہ مارکنگ کے لئے مختص مرکز میں بیٹھ کر نمبر لگانے پڑتے ہیں۔ گویا ایک لحاظ سے ناجائز ذرائع سے نمبر لگوانے میں بہت حد تک رکاوٹ آگئی ہے۔ تعلیمی بورڈوں اور جامعات نے طلبہ کی جوابی کاپیوں کو خفیہ رکھنے کے لئے فرضی رول نمبروں Fictitiousکو متعارف کرایا تاکہ کسی کو کسی کی جوابی کاپی کا پتہ نہ چل سکے۔ فرضی رول نمبروں کا طریقہ کار لانے کے بعد ناجائز ذرائع سے نمبر لگوانے کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے تھا تاہم یا ر لوگوں نے ایک نیا راستہ نکال لیا۔ امیدوار سے کہہ کر جوابی کاپی کے ٹائٹل پر کوئی نہ کوئی نشانی لگوا دی جاتی جس کے بعد تعلیمی بورڈوں اور یونیورسٹیوں سے ممتحن حضرات کی فہرست حاصل کرنے کے بعد جس مضمون میں کسی کے نمبر لگوانے ہوں اس مضمون کے ایگزمنر سے رابطہ قائم کر لیا۔ کسی مضمون کے ایگزمنر پانچ ہوں تو ان پانچوں کو جوابی کاپی پر امیدوار سے لگوائی جانے والی نشانی بتا کر ناجائز ذرائع سے نمبر لگوانے کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عام طور پر تعلیمی بورڈوں اور یونیورسٹیوں میں سیکریسی آفیسر ان پروفیسر حضرات اور ہیڈ ماسٹرز کو لگایا جاتا ہے ان کی شہرت بے داغ ہو اور ان پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکی۔ بعض ممتحن حضرات ایسے ہوتے تھے وہ بذات خود بورڈ ملازمین کو بتا دیا کرتے تھے ان کے پاس فلاں شہر یا فلاں یا سنٹر کے پرچے آئے ہیں لیکن ذہن میں یہ سوال آتا ہے ممتحن کو کیسے معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاس کس سنٹر یا شہر کے پرچے آئے ہیں۔ درحقیقت بعض امیدوار اپنے پرچے پر شہر اور سینٹر کا نام لکھ دیتے تھے جس سے پرچے دیکھنے والوں کو اس بات کا علم ہو جاتا اس کے پاس فلاں شہر اور سنٹر کے پرچے آئے ہیں۔ یہ کالم نگار ایک تعلیمی بورڈ میں کئی عشروں تک ملازمت کر چکا ہے اللہ کی مہربانی سے میں ترقی کرتے کرتے افسر بن گیا۔ یہ تو بدقسمتی تھی ورنہ میں نے 2015ء میں ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہونا تھا۔ امتحانی مراکز میں کئی طلبہ سینٹر سپرنٹنڈنٹس اور دیگر عملہ کی مبینہ ملی بھگت سے ناجائز ذرائع کا استعمال کرتے ہیں۔ کئی امتحانی ناظمین کو دیکھا ہے جو امیدواروں کو جوابی کاپیاں دے دیا کرتی جس کے بعد امیدوار حل کرنے کے بعد امتحانی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ کے حوالے کرتا۔ تعلیمی بورڈوں اور یونیورسٹیوں کے چیئرمین اور وائس چانسلر حضرات کی بھرپور کوشش ہوتی ہے امتحانات میں ناجائز ذرائع کے استعمال کو ہر صورت روکا جائے اگر امتحانی سنٹر کا ناظم کسی امیدوار سے مل جائے تو بورڈ اور یونیورسٹوں کے اعلیٰ افسران کچھ نہیں کر سکتے۔یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے امتحانی مراکز کے ناظمین کسی امیدوار کی ناجائز ذرائع سے مدد کرنا چاہیں تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ بات زد عام ہے فلاں بورڈ میں مارکننگ کی سختی ہے، مروجہ طریقہ کار کے مطابق جس مضمون کا امتحان ہو اگلے روز پرچہ بنانے والا اور دیگر ہیڈ ایگزمنرز کی تعلیمی بورڈوں میں میٹنگ ہوتی ہے، جس میں پرچہ کو اس اعتبار سے بھی دیکھا جاتا ہے کہیں سیلبس سے باہر کوئی سوال تو نہیں آیا۔ اگر ایسی صورت ہو تو پرچہ ساز تمام ہیڈ ایگزمنر کا نئی ہدایات دیتا ہے جنہیں پرنٹ کرکے تمام سب ایگرمنرز کو بھیجی جاتی ہیں، جو امیدواروں کے سوالوں کے جوابات کی روشنی میں ان ہدایات کی روشنی میں نمبر لگاتے ہیں۔ ایک اردو معاصر کی خبر نظر سے گزری تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا لاہور تعلیمی بورڈ کے ایک نائب قاصد کو پرچوں کی چیکنگ سے روک دیا گیا ہے۔ خبر سے تو یہی پتہ چلتا ہے نائب قاصد کو پرچوں کا بنڈل دے دیا گیا تھا۔ گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے نائب قاصد کے کوائف طلب کرلئے گئے ہیں۔ بورڈ حکام کے مطابق حافظ عمر نے چند ایم سی کیو پیپرز چیک کئے ہیں۔ الاٹ شدہ بنڈل کو سیل کرکے انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔ جس ملک کے تعلیمی معیار اور امتحانات لینے والے بورڈوں کا یہ حال ہو جہاں امیدواروں کی امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال نائب قاصدوں سے کرائی جائے ایسے ملک کے تعلیمی معیار کا کیا حال ہو گا؟۔ دل خوں کے آنسو روتا ہے یہ تو سنتے تھے کسی نے امتحانی سینٹر میں نقل لگا لی ہے۔ نائب قاصد سے پرچوں کی جانچ پڑتا ل کرانے کا منفرد واقعہ ہے اس سے قبل کبھی نہیں سنا تھا امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال نائب قاصد سے کرائی جاتی ہو۔ امتحانی پرچوں کی مارکنگ نائب قاصد سے کرانے کے واقعہ سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی اعلیٰ سطح پر انکوائری ہونی چاہیے۔ دو باتیں ذہن میں آتی ہیں اگر نائب قاصد کا نام سکول کے ہیڈ ماسٹر نے سب ایگزمنر کے لئے مختص فارم میں لکھ کر بورڈ کو ارسال کیا تھا تو ہیڈ ماسٹر کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔ غالب امکان ہے کہ نائب قاصد نے بورڈ پروفارما پر ہیڈ ماسٹر کے فرضی دستخط کرکے پروفارما بورڈ کو بھیجا ہوگا۔ بہرکیف اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ ذمہ داروں کو سزا مل سکے۔ امتحانی نظام میں مبینہ طور پر پائی جانے والی بے قاعدگیوں کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا امتحانی نظام اسی طرح چلتا رہا تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

جواب دیں

Back to top button