CM RizwanColumn

ٹرمپ یوٹرن لے گا؟

تحریر : سی ایم رضوان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا بھر کے کئی ممالک پر ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد امریکہ کی اپنی سٹاک مارکیٹس میں مندی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ ابتدائی گھنٹوں کے دوران سٹاک مارکیٹ انڈیکس ڈو جونز میں 2.8فیصد، ایس اینڈ پی میں 3.3فیصد اور نیزڈیک ( جہاں اکثر ٹیکنالوجی کمپنیاں لسٹڈ ہیں) میں 4.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ معروف کمپنیوں کے حصص کی قدر میں بھی کمی آئی ہے۔ جیسے نائیکی کی قدر میں 11 فیصد، گیپ میں 18 فیصد اور ایمیزون میں سات فیصد گراوٹ آئی ہے۔ ایپل کمپنی جس کی مصنوعات چین میں بنتی ہیں کی قدر میں نو فیصد کمی آئی۔ ٹرمپ کے بقول امریکہ کے اس ’’ یوم آزادی‘‘ پر پاکستان سمیت 100 ممالک پر نئے ٹیرف کا اعلان کیا ہے جسے ’’ عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرانے جیسا عمل‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ 40 سال قبل جاپان کے ایک دورے نے ٹرمپ کی آج کی تجارتی پالیسی تشکیل دی تھی۔
یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شیئر کی قدر اگلے دن کے دوران واپس بحال ہو سکتی ہے، یعنی یہ تبدیلی مستقل نہیں ہوتی۔ تاہم فی الحال تو امریکہ میں شمسی توانائی سے متعلق کمپنیوں کے حصص کی قدر میں بھی کمی آئی ہے۔ دوسری طرف وائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری نے کہا ہے کہ کوئی بھی شخص جو آج صبح وال سٹریٹ پر موجود ہے، وہ صدر ٹرمپ پر اعتماد کرے البتہ ٹیرف کے اقدامات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
جبکہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اس پر ردعمل آیا ہے اور ہر بڑے ملک کے سربراہ نے اس اقدام پر اپنے اپنے انداز میں تنقید کی ہے۔ مثال کے طور پر تین اپریل 2025ء کو برطانیہ نے جوابی ٹیرف عائد کرنے کے لئے امریکی مصنوعات کی فہرست تیار کر لی ہے۔ اس ضمن میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹامر کا کہنا ہے کہ ’’ یہ نئے دور کا آغاز ہے‘‘۔ برطانیہ نے اِن امریکی مصنوعات کی فہرست تیار کی ہے جن پر جوابی ٹیرف عائد کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ 417صفحات پر مشتمل فہرست پر کسی چیز کے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر ٹیرف عائد کیا جائے گا۔ کاروبار اور تجارت کے برطانوی محکمے کے مطابق اس فہرست میں امریکہ سے درآمد کی جانے والی 27فیصد اشیا شامل ہیں جن کے برطانیہ کی معیشت پر محدود اثرات ہوں گے۔ ان مصنوعات میں اعلیٰ نسل کے گھوڑے، بچوں کے کپڑے، خام تیل، بندوقیں اور بربن شامل ہیں۔ امریکہ کی جانب سے عائد کیے گئے ٹیرف کے اثرات اور ممکنہ جوابی اقدامات کے لئے برطانوی حکومت کی اپنے کاروباری طبقے سے مشاورت جاری ہے۔ برطانیہ کے بزنس سیکرٹری جوناتھن رینلڈز نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت سمجھتی ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ ’’ ممکن‘‘ اور ’’ مفاد میں‘‘ ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے پاس یہ حق بھی ہے کہ اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو اپنی ضرورت کے تحت جوابی اقدام کرے۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے کے تحت برطانیہ پر 10فیصد ٹیرف عائد کی گئی ہے۔ جبکہ برطانیہ سمیت دنیا بھر کے ملکوں میں امریکی ٹیرف کے تین اثرات ہو سکتے ہیں: قیمتیں بڑھ سکتی ہیں یا کم ہو سکتی ہیں، لوگوں کی نوکریاں اثر انداز یا متاثر ہو سکتی ہیں اور شرح سود کے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹامر کا کہنا ہے کہ برطانیہ کسی بھی ملک کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کرتا ہے مگر اس معاملے میں کوئی بھی اقدام قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا جائے گا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان پر 29، چین پر 34، بھارت پر 26فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے، اس فیصلے کے باعث چار فیصد امریکیوں نے ٹرمپ پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے اور اس کی مقبولیت 47فیصد سے گھٹ کر 43فیصد ہو گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی اقتصادی پالیسی میں جو سخت گیر تجارتی فیصلے دیکھنے کو مل رہے ہیں، وہ نہ صرف بین الاقوامی سفارتی تعلقات پر اثر انداز ہو رہے ہیں بلکہ امریکی عوام میں بھی بے اطمینانی کو جنم دے رہے ہیں۔ گیلپ سروے کے مطابق ٹرمپ کی مقبولیت میں نمایاں کمی، امریکی عوام کے عدم اطمینان کا واضح ثبوت ہے۔ ٹرمپ کی جانب
سے مختلف ممالک پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ایک طرف امریکہ کی اقتصادی خودمختاری کو فروغ دینے کی کوشش ہے، تو دوسری طرف یہ عالمی تجارتی نظام میں تنائو بڑھانے کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان، بھارت، چین، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک پر اضافی ٹیرف عائد کرنے سے امریکہ کے تجارتی تعلقات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہر ملک اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے، لیکن معاشی پالیسیوں کو تشکیل دیتے وقت عالمی سفارتی تعلقات اور ممکنہ نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ٹیرف میں اس اضافے سے امریکہ میں مہنگائی چار فیصد بڑھے گی۔ علاوہ ازیں امریکہ دوسرے ممالک پر سخت اقتصادی شرائط عائد کرے گا تو یہ ممالک بھی جوابی اقدامات اٹھا سکتے ہیں، جس سے تجارتی جنگ مزید شدید ہو سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی معیشت کے لئے بھی نقصان دہ ہو گا لیکن جو فوائد فوری طور پر امریکی انتظامیہ کو ہوں گے ان میں ملک میں انڈسٹری کا فروغِ، محصولات کی مد میں اضافہ اور امریکہ جو کہ دنیا میں سب سے بڑا سروسز دینے والا ملک بن گیا ہے اب اس میں مینو فیکچرنگ اور کاروبار کو فروغ ملے گا۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ چین اور دنیا کی دیگر بڑی معیشتیں امریکہ پر جوابی طور پر بڑے ٹیرف عائد کر سکتی ہیں تو اس کا توڑ اس نے خود ہی بڑا ٹیرف لگا کر دے دیا ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کو گو کہ اس وقت امریکی اچھی طرح نہیں سمجھ سکے لیکن کچھ عرصہ بعد وہ سمجھ جائیں گے کہ یہ بڑا اقدام امریکی معیشت کے لئے سود مند ہے۔ البتہ وقتی طور پر ٹرمپ کے فیصلوں سے امریکی عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے، اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو اگلے انتخابات میں ریپبلیکنز کی مقبولیت زمین بوس ہو چکی ہوگی۔ یہاں ٹرمپ کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ معاشی استحکام کسی ایک ملک کی پالیسیوں پر منحصر نہیں ہوتا، بلکہ عالمی تعاون اور باہمی تعلقات اس میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی تجارتی حکمت عملی کو زیادہ متوازن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی معیشت بھی مستحکم رہ سکے۔ ایک امید یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ شاید آئندہ ہفتے ٹرمپ اپنے مذکورہ بڑے اقدام پر جزوی یا مکمل یو ٹرن لے لے۔

جواب دیں

Back to top button