ColumnImtiaz Aasi

بلوچ معاشرے میں خواتین کا احترام اور احتجاجی تحریک

 

تحریر : امتیاز عاصی
ہمیں اختر مینگل کی یہ بات بھلی لگی 77برس میں یہ معلوم نہیں ہو سکا بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے آج وہاں کی خواتین کو سڑکوں پر نکلنے کی کیوں ضرورت پیش آئی ہے ۔ بلوچ معاشرے میں خواتین کے احترام بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں اگر کہیں قتل ہو جائے تو جرگہ میں فیصلہ نہ ہو سکے تو علاقے کے بڑے سردار کو جرگہ میں شامل کیا جاتا ہے اس کے باوجود مقتول خاندان قاتل کو معاف نہ کرے تو آخر میں قاتل خاندان کی خواتین مقتول فیملی کے ہاں معافی کے لئے چلی جائیں تو خواتین کو مقتول خاندان کے لوگ بہت عزت اور احترام دیتے ہوئے قاتل کو معاف کر دیتے ہیں بلکہ واپسی پر قاتل خاندان کی خواتین کے سروں پر چادر ڈال کا واپس بھیجا جاتا ہے۔ بلوچ معاشرے میں یہ ہے عورت کا احترام جس کی مثال نہیں ملتی۔ بلوچستان کی خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکل آئی ہیں تو اسے معمولی نہ سمجھا جائے۔ سوشل میڈیا پر خواتین کی بہت بڑی تعداد سڑکوں پر دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا ایک پسماندہ صوبے کی خواتین سڑکوں پر آسکتی ہیں۔ بلوچستان کے معدنی وسائل سے پوری طرح استفادہ کیا جائے تو ہمارا ملک معاشی طور پر خوشحال نہیں تو کم از کم مقروض نہیں رہ سکتا۔ باوجود اس کے یہاں کئی آپریشن ہو چکے ہیں امن و امان کی صورت حال پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
یہ بات درست ہے ماضی میں وہاں کے سرداروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا یا سرداروں کی خود سری سے معاملات بگڑتے رہے سیاست دان اور حکومتیں کیا کرتی رہی ہیں۔ بلوچستان کے حالات اور ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا صوبے کے حالات پر کنٹرول کرنے کے لئے طاقت کا استعمال مستقل حل نہیں ہے۔ طاقت کے استعمال سے بلوچستان میں امن قائم ہو سکتا تو ایوبی دور میں ہونے والے آپریشن سے قائم ہوجاتا۔ ماہ رنگ بلوچ ہو یا کوئی اور خاتون ان کی گرفتاری سے امن قائم ہو سکتا ہے ؟ چلیں وقتی طور پر طاقت کے استعمال سے امن قائم ہو گیا تو کیا فائدہ۔ کئی عشرے گزرنے کے باوجود وقفے وقفے سے شورش سر اٹھاتی ہے ہمیں شورش کو مستقل طور پر ختم کرنے کی سبیل نکالنی ہو گی۔ ہماری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سنیئر بیورو کریٹس سے یاد اللہ بہت پرانی ہے جن میں بہت سے ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور بعض اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ شہباز حکومت کو سارے معاملات اداروں پر نہیں چھوڑنے چاہیں کچھ اپنی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ یہ سیاسی حکومتوں کی ناکامی کا ثمر ہے وہاں کے حالات بدستور بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کو ماضی میں پیش آنے والے واقعات کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے۔ خان آف قلات اور بانی پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو بلوچستان کے حالات اس نہج تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ ایوبی دور میں زہری قبیلہ کے سردار نوورز خان کے بیٹوں کو قرآن پاک پر حلف دینے کے باوجود پھانسی دینے سے معاملات بگڑے تھے۔ خان آف قلات اور نواب اکبر خان بگٹی کی اولادیں لندن میں جلاوطنی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں قیام پاکستان سے قبل بلوچستان کی چار آزاد ریاستوں کے سرداروں اور ان کے خاندان کے لوگ شاہانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ پاکستان سے ریاستوں کے الحاق کے بعد سرداروں کی آل اولاد کو پہلے والے اختیارات اور پرتعیش زندگی گزارنی کیلئے وسائل محدود ہونے سے حالات اس ڈگر کی طرف چل نکلے ورنہ اگر انہیں کچھ نہ کچھ سہولتیں فراہم کی جاتیں تو شورش پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ خان آف قلات اور بانی پاکستان کے مابین ہونے والے معاہدے میں کیا تھا۔ خارجہ اور دفاع کے امور اور کرنسی پر کنٹرول وفاق کا ہونا تھا باقی تمام امور صوبے کی ذمہ داری تھی۔ آئین پاکستان میں کیا لکھا ہے صوبوں کے معدنی وسائل صوبوں کی ملکیت ہوں گے اسی طرح گوادر کے پانی بارے آئین میں جو کچھ لکھا ہے اس پر من و عن عمل ہونا چاہیے ۔ سوال ہے اگر بلوچستان کے عوام روز گار، پانی اور اپنے حقوق مانگتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے۔ ہم اس بات سے صرف نظر نہیں کر سکتے ہیں وہاں کے بعض لوگ بیرونی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ریاست کی ذمہ داری ہے وہ ایسے لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ کسی قبیلے کے دوسرے مخالف کو بڑا منصب دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس مقصد کے لئے تمام بلوچ قبائل کے بڑوں کو یکجا کرنے کے لئے کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کو تمام امور اداروں پر نہیں چھوڑنے چاہیے انہیں سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنے ہیں۔ آج وہاں کے لوگ پہاڑوں پر کیوں جا بیٹھے ہیں جنہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے اخلاص سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے قبائل کی صورت حال یہ ہے کسی قبیلے کے چار بھائی ہیں تو چاروں نے الگ الگ تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں۔ صوبے کے جو لوگ امن و امان خراب کرنے میں ملوث ہوں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے تاکہ وہاں کے عوام کو قانون اور آئین کی پاسداری کا احساس ہو سکے۔ ایک تجربہ نرم رویہ رکھ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اختر مینگل کے ساتھ عوام سڑکوں پر نکلے ہیں تو اختر مینگل کو اعتماد میں لیا جا سکتا ہے ۔گو بلوچستان میں بہت سے قبائل اور سردار ہیں ۔ملک کے وجود میں آتے وقت کے سردار اس دنیا میں نہیں رہے ہیں البتہ ان کی آل اولاد تو وہیں ہیں۔ جیسا کہ بگٹی قبیلے کے ایک فرد کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے تو نواب اکبر بگٹی کے قبیلے کے لوگوں سے بات چیت کرنے میں کیا ہرج ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی سرحد پار آمدورفت پر کسی کا کنٹرول نہیں افغانستان سے آنے والی منشیات بلوچستان کے راستے ایران اسمگل ہو سکتی ہیں تو وہاں سے اور بہت کچھ بلوچستان میں لایا جا سکتا ہے۔ وفاق نے افغان پناہ گزنیوں کی وطن واپسی کا اچھا فیصلہ کیا ہے اختر مینگل کا بہت پرانا مطالبہ تھا بلوچستان سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے۔ جب پانی سر سے گزرنے لگا ہے تو افغان پناہ گزنیوں کی واپسی ضروری سمجھی گئی ہے کیا ہی اچھا ہوتا انہیں چند سال پہلے واپس بھیج دیا جاتا۔ صوبے میں امن و امان قائم کرنے کے لئے وفاق کو بلوچ قبائل کے سرکردہ لوگوں کی فوری طور پر کمیٹی قائم کرکے بلوچ عوام کے مسائل حل کرنے کی راہ نکالنی چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button