Column

چینی اور نکتہ چینی

تحریر : شکیل امجد صادق
چینی ایک سفید رنگ کا دانے دار میٹھا ہے۔ دراصل یہ میٹھا کماد کے گنے کا رس نکال شوگر ملوں میں مختلف پراسس سے گزار کر تیار کیا جاتا ہے۔ امیر آدمی اس سے پرہیز کرتے ہیں اور کبھی کبھی کم مقدار میں استعمال کرتے ہیں جبکہ غریب اور مزدور آدمی تھکاوٹ کے وقت اسے پانی میں گھول گھول کر پیتے ہیں اور دل کو سکون دیتے ہیں۔ ان کو جو سکون یہ چینی والا پانی دیتا ہے وہ نور جہان کے گانے بھی نہیں دیتے۔ایک وقت وہ بھی تھا جب گائوں میں کسی کے ہاں مہمان آتے تو یہ محلول ان کو بھی پیش کیا جاتا۔ مہمان واپس جاکر بڑے فخر سے بتاتا کہ مجھے چینی کا شربت پلایا گیا تھا۔ وقت تھوڑا سا آگے بڑھا تو چینی کے اس محلول میں کئی طرح کے رنگ دار شربت ملا کر اس کا رنگ سرخ کیا جلانے لگا یا رنگ تبدیل کیا جانے لگا۔ ( رنگ بدلنے یا تبدیل کرنے کی اصطلاح ہمارے ہاں طوطا چشمی کی اصطلاح سے بھی خاصی قدیم ہے۔ جیسے ہمارے سیاستدانوں کا رنگ ووٹ لینے سے پہلے اور ہوتا ہے اور اسمبلی میں پہنچ کر ان کا رنگ اور ڈھنگ تبدیل ہوجاتا ہے) چینی میں حل شدہ پانی میں ڈالنے والے رنگ یا شربت اب روح افزا،جام شریں،لال شربت وغیرہ وغیرہ کے نام سے مارکیٹ میں آچکے ہیں۔یہ چینی وہ آئٹم ہے جو کم و بیش ہر گھر کی ضرورت عالیہ ہے۔ پاکستان میں چینی بنانے والی جتنی ملیں ہیں ان میں دس فیصد عام سرمایہ کاروں کی ہیں اور باقی نوے فیصد سیاستدانوں، وزیروں، حکمرانوں کی ہیں۔ ماضی میں ایک چینی مافیا کے سرغنہ نے تو عمران خان کے دور میں اتنا جہاز اڑایا، اتنا جہاز بھگایا کہ عمران خان کو لولا لنگڑا وزیر اعظم بنوانے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر بعد میں ملک کے اسی خیر خواہ نے وہ چینی بلیک کی، وہ چینی بلیک کی اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیں۔ اسی طرح اس حکومت کے ان نمائندوں نے جن کی شوگر ملیں اپنی تھیں ایسے ہی کیا؟ پہلے چینی باہر بھیجی اور ادھر قلت پیدا کی اور پھر چینی باہر سے منگوائی اور باقی ماندہ چینی گوداموں سے نکال کر پورے پچاس روپے کلو مہنگی بیچی۔ عوام نے پھر بھی خریدی۔ عوام مرتے خریدتے نہ تو اور کیا کرتے۔ اس ملک کی عوام شوگر کے عارضے پر شور مچا سکتے ہیں مگر شوگر مہنگی ہونے پر ان کا رد عمل زیرو ہے۔
یہاں میں ایک واقعہ درج کرنا چاہوں گا جو خط و کتابت کے زمانے میں مجھے ایک دوست نے بذریعہ خط لکھ بھیجا تھا۔ پیارے دوست محمد امجد ثانی اپنے اعتکاف کے بارے قلم طرازی ہیں کہ
’’ میڈم نور جہاں سے میرا پہلا تعارف اپنے کچے کمرے کی چھت پر چارپائی پر لیٹے ہوا تھا ۔ ’’ سانوں نہر والے پُل تے بُلا کے خورے ماہی کتھے رہ گیا‘‘ ٹریکٹر کی ٹیپ پر یہ گانا بج رہا تھااور میڈم نور جہاں کی آواز میرے اندر سرایت کر رہی تھی، عشق کے لیے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے میں تو پھر ساری رات نورجہاں سُنتا رہا۔ اس کے بعد ریڈیو ٹی وی ٹیپ ریکارڈر پر میڈم نور جہاں کے گانے سننے، وی سی آر پر میڈم کی گیت مالا سننی میڈم نور جہاں میری روح میں اُتر رہی تھیں۔ پی ٹی وی پر میڈم کا گانا آتا تو میں ٹی وی کے آگے آنکھ جھپکے بغیر گانا سُنتا میڈم کو دیکھتا میرے لیے موسیقی کا مطلب نورجہاں تھا۔ عید پر گائوں کے ایک دوست سے جب ملا تو اس کی جیب پیسوں سے بھری ہوئی تھی یعقوب تیلی سے پکوڑے کھا رہا تھا کبھی سوڈے کی بوتل پی رہا تھا۔ اتنے پیسے کہاں سے ملے ؟ یار میں اعتکاف بیٹھا تھا۔ اعتکاف بیٹھنے پر ہار ڈالتے ہیں پیسے دیتے ہیں منہ پر نور آتا ہے ثواب ملتا ہے سب سے بڑی بات دس دن سکول سے چھٹیاں ۔
رمضان شریف آیا تو شروع سے ہی اعتکاف کی نیت کر لی اور بیسویں روزے پتہ چلا کہ بڑے بھائی اعتکاف کے لیے بستر لے جا چکے ہیں میں مسجد گیا تو بھائی عصر کے نماز کے بعد شاید گھر والوں سے ملنے کے لیے آئے لیکن میں اسی بستر میں جا کے لیٹ گیا بھائی واپس آیا تو میں نے کہا میں اعتکاف بیٹھوں گا بڑے بھائی نے بڑا دل کیا اور مجھے اعتکاف کرنے کا موقع مل گیا نیت یہی تھا کہ عید پر اچھے خاصے پیسے ہوں گے اور جو پیسوں والے ہار پڑیں گے ان کو سارا سال توڑتا رہوں گا گزارہ ہوتا رہے گا۔ ستائیسویں کی رات تھی افطاری کے وقت کھانا لاتے ہوئے یا شاید عشاء میں کسی نے بتایا کہ میڈم نور جہاں انتقال کر گئی ہیں۔ مجھے ایسے لگا میرا کوئی اپنا مر گیا سجدہ کرتے وقت آنکھ سے آنسو بھی ٹپکے۔ اعتکاف ختم ہوا گھر والوں نے ہار ڈالے رشتے داروں میں سے کسی نے پانچ سو کسی نے ہزار کا نوٹ دیا، گھر آیا امی بڑی خوشی سے ملیں، ابو شاباش دی۔ ملنے ملانے کے بعد امی نے پوچھا بیٹا کتنی بار قرآن شریف پڑھا جی ایک بار ۔۔ اپنے نانے کو کتنے سپارے بخشے اور دادا جی کو کتنے؟۔ امی میں نے سارا قرآن شریف نور جہاں کو بخش دیا تھا۔ دور ٹریکٹر پر میڈم نور جہاں کا گانا بج رہا تھا ’’ ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں‘‘ ۔۔۔ تمام حکومتیں عوام کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں میڈم کے اسی گیت پر عمل کرتی ہیں کہ ’’ ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں‘‘ اور خوب بیوقوف بناکر لوٹنے کے در پے ہیں اور ہم وہ ہیں جو ہر الیکشن میں انہی کے نعرے لگاتے۔ کوئی کہتا ہے ’’ ایک زرداری سب پہ بھاری ۔۔۔ دوسرا کہتا ہے میاں دے نعرے وجن گے۔۔۔۔۔ تیسرا کہتا ہے جب آئے گا عمران‘‘۔۔۔
اور کوئی کچھ کہتا ہے۔ یہ بات تو اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ اس عوام کے، اس ملک کے ملازمین کے ساتھ کوئی بھی حکومت مخلص نہیں ہے اور کوئی حکومت ان کے درد کا درمان کرنے والی نہیں ہے۔ وطن عزیز ہر حوالے سے زوال کا شکار ہونے کو ہے۔ بھائی ہم تو بس چینی کے مہنگے ہونے پر نکتہ چینی کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button