
تحریر :سی ایم رضوان
پاکستان میں ہر سیاسی ڈرامہ ہی ہٹ ہو جاتا ہے۔ یہاں تو ان سیاستدانوں کا سیاسی ڈرامہ بھی ہٹ ہو گیا تھا جنہوں نے واضح طور پر یہ اعلان کر دیا تھا کہ کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی بنایا جا سکتا ہے۔ تازہ سیاسی ڈرامہ بلوچستان میں یہ چل رہا ہے کہ سی پیک یا دیگر چینی منصوبے مکمل نہیں ہونے دینے چاہے نعوذباللہ ملک میں آگ ہی لگانا پڑے۔ دوسرا خاص طور پر ان سالوں میں عمرانڈوز ڈرامہ تو ریکارڈ توڑ ہٹ ہو گیا ہے۔ گو کہ اس ڈرامے کی بات اور اس کے کرداروں کے بقول انقلاب سبھی جھوٹے ہیں مگر یہ خلاف اصول اتنا ہٹ ہوا ہے کہ کمال ہے۔ ان حالات میں اصل یعنی سکرین والے کسی بھی ڈرامے کا ہٹ ہو جانا بھی حالیہ برسوں میں اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے نہ صرف تھوڑی ترقی کی ہے بلکہ نجی چینلز کے مابین پروڈکشن کوالٹی کے ساتھ ساتھ اچھے موضوعات میں بھی مقابلہ چل رہا ہے۔ خاص طور پر اب بولڈ اور حساس موضوعات پر بھی ڈرامے بن رہے ہیں اور ناظرین انہیں پسند بھی کر رہے ہیں ان ہی ڈراموں میں سے ایک حالیہ ختم ہونے والا ڈرامہ ’ تن من نیل و نیل‘ بھی ہے جس کی آخری قسط نے سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں خوب دھوم مچائی۔ اس ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار شجاع اسد کا کہنا ہے کہ ان کو ڈرامے میں دیئے جانے والے پیغام کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ کیونکہ اب دور آ گیا ہے کہ ’ کیوں ڈریں ہم؟ اب اداکار اپنے دل سے ڈر نکال دیں۔ ہم کوئی غلط بات تو نہیں کر رہے۔ ہم تو وہی کر رہے ہیں جو دنیا میں ہو رہا ہے‘۔ مطلب یہ ہے کہ امریکہ حوثی باغیوں کے بہانے عید کے دنوں میں خوفناک بمباری کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم دنیا کو اچھا بنا رہے ہیں تو ایک اداکار بولڈ موضوع پر ڈرامے کیوں نہیں بنا سکتا۔
بہرحال سلطانہ صدیقی کا پروڈیوس کیا ہوا یہ پراجیکٹ ’ تن من نیل و نیل‘ دو ایسے نوجوانوں کی زندگی پر مشتمل تھا جنہوں نے اپنے جنون کو حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی۔ ان دو کرداروں سونو کے کوریو گرافر اور رابی کے کانٹیٹ کری ایٹر بننے کے خواب نے ان سے ان کی زندگی ہی چھین لی۔ ڈرامے کا مرکزی خیال ’ موب لنچنگ‘ یعنی ہجوم کے ہاتھوں قتل تھا اور یہ پیغام آخری قسط میں بہترین طریقے سے ڈیلیور کیا گیا۔ شجاع اسد کہتے ہیں کہ ’ مجھے تو پہلے سے پتہ تھا کہ اختتام دیکھ کر سب کو بہت تکلیف ہو گی۔ جو پیغام میں چاہتا تھا کہ ناظرین تک پہنچے۔ وہ پیغام تیر کی طرح ان کے دل پر جا کر لگے اور وہی ہوا۔ لوگوں کے میرے پاس میسیجز آ رہے تھے کہ ہمیں زندگی بھر کا صدمہ دینے کا شکریہ‘۔
یاد رہے کہ شجاع اسد نے کچھ سال پہلے اداکاری شروع کی تھی اور اپنے ہر کردار سے عوام کا دل جیتا۔ چاہے وہ ’ خئی‘ ہو، ’ تن من نیل و نیل‘ ہو یا حال ہی میں ختم ہونے والا ڈرامہ ’ اے عشقِ جنوں‘ ہو۔ ’’ تن من نیل و نیل‘‘ میں شجاع نے سونو کا کردار نبھایا جس کو دیکھنے والوں نے اس کی معصومیت اور سچائی کی وجہ سے کافی پسند کیا۔ شجاع کا کہنا ہے کہ ’ سونو، رابی اور مون کو حقیقت سے اتنا قریب بنانے کی وجہ ہی یہی تھی کہ لوگوں کو سمجھ آئے کہ جن کے ساتھ بھی اب تک یہ ہوا ہے وہ بھی ہماری طرح تھے۔ ان کے بھی پیار کرنے والے تھے وہ لوگ بھی معصوم تھے؟ ان کے بھی خواب تھے؟‘، شجاع اسد کا کہنا تھا کہ ہجوم کے حملے والا سین کرتے ہوئے سیٹ پر کافی تنائو والا ماحول تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ سب سے پہلے علی عمار اور سحر کے شوٹس تھے۔ پہلے سحر گئی۔ دو گھنٹے بعد وہ آئی اور کانپ رہی تھی۔ اس کی تھائی ( یعنی پٹ) پر رگڑ لگی تھی، خون نکل رہا تھا اس کا۔ اس کی چوڑیاں ٹوٹ کر کلائی میں پھنس گئی تھیں۔ ایک سین میں وہ اصل میں گر گئی تھی۔ میں ڈر گیا کہ کیا ہوا ہے۔ جب علی واپس آیا تو اسے بھی چوٹیں لگی ہوئی تھیں۔ جہاں ہم شوٹ کر رہے تھے وہاں ایک اور بھی مسئلہ تھا۔ ان گلیوں میں پتنگ کی ڈوریں بھی لگی ہوئی تھیں۔ جب میری باری آئی تو میں نے پہلے آرام سے واک کی کہ کوئی ڈور یا کچھ لگ نہ جائے۔ مجھے کوئی چوٹ نہیں لگی‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگ ممنوع موضوع پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں لیکن منی سیریز ’ تن من نیل و نیل‘ نے مردوں کے ریپ جیسے ٹیبو موضوع پر بھی پہلی ہی قسط میں روشنی ڈالی اور دیکھنے والوں نے حیرت، پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا۔
مردوں کا ریپ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں پچھلے 80سالوں میں ڈرامہ انڈسٹری میں کبھی بات نہیں ہوئی۔ یہ اتنا ٹیبو ٹاپک ہے کہ اس کے بارے میں بات کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں اور جو اداکار ہیں وہ بھی ایسے کردار نبھانے سے ڈرتے ہیں۔ شجاع اسد نے ایک ساتھی اداکار کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ علی عمار کو اتنا بڑا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا کردار اٹھایا جو مردوں کے ریپ کے بارے میں تھا۔ ورنہ اداکار تو شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کیریکٹر کیوں کروں‘۔
لیکن شائقین کی جانب سے داد سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈرامہ میں دکھائے جانے والے موضوع بے کار نہیں گئے اور ان سے لوگوں میں ذمہ دار سوچ پیدا ہوئی۔ اس کا میسج اتنا اچھا گیا کہ لوگوں نے بات کرنا شروع کی کہ ہاں یہ بھی ہوتا ہے۔ ورنہ جب لڑکوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے تو وہ اس بارے میں بات نہیں کرتے۔ اسی کے ساتھ ساتھ شجاع کا دوسرا ڈرامہ ’ اے عشقِ جنوں‘ بھی چل رہا تھا جس میں وہ سونو سے بالکل مختلف کردار نبھا رہے تھے۔ شہروز کے کردار میں شجاع نے ولن ہونے کے باوجود عوام کا دل جیت لیا۔ شجاع کا کہنا ہے کہ ’ دونوں ہی کردار اتنے انٹینس تھے کہ میں نفسیاتی طور پر بھی نڈھال ہو گیا تھا‘۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف ہیرو بننے کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ اچھے سکرپٹس پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مرکزی کرداروں پر معاون کرداروں کو فوقیت دی جن کا ناظرین پر اثر کافی جاندار تھا۔ البتہ ان کے اگلے آنے والے ڈرامے ’ پیراڈائز‘ میں وہ اداکارہ اقرا عزیز کے ساتھ مرکزی کردار نبھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔
بات ہو رہی ہے ڈراموں کی تو ایک اور ڈرامے کا حال بھی پڑھ لیجئے جس کا حال ہی میں ڈراپ سین ہوا ہے جس کی ابتداء سوشل میڈیا پر عمرانڈوز ٹرولز کی جانب سے اس اعلان سے ہوئی تھی کہ ’’ نوبیل امن انعام، عمران کے نام ‘‘ اب مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کو رواں سال کے لئے امن کا نوبیل پرائز دیئے جانے کی خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی کے حامیوں کے لئے یہ خبر اس طرح مایوس کن ثابت ہوئی ہے کہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے جس تنظیم نے نوبیل پرائز کے لئے اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر 804کی شناخت رکھنے والے پاکستانی سیاستدان کا نام اس اعزاز کے لئے نامزد کیا تھا اس نامزدگی کی کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اس اعزاز کے لئے عمران خان کی نامزدگی اعلیٰ سطح تک رسائی حاصل کر سکے گی، ہاں اس بات میں اتنی سچائی ضرور ہے کہ اس نوبیل پرائز کا وجود دنیا میں ضرور ہے اور اس نوبیل پرائز کیلئے نامزدگی کی آخری تاریخ یکم فروری ہوتی ہے جبکہ منتظمین نے نامزدگی 29مارچ کو جمع کرائی تھی، قواعد کے مطابق اگر تاریخ گزرنے کے بعد بھی کسی شخصیت کا نام اس اعزاز کیلئے نامزد کیا جائے تو اسے ایک غیر سنجیدہ اور بے مقصد کوشش اور برائے نام کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کا کسی بھی سطح پر کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ بہرحال یہ بات تسلی بخش ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا نام اس تنظیم کو بھیجا گیا تھا البتہ نامزدگی کیلئے نام کا انتخاب کرنے اور مطلوبہ تقاضوں کو پورا کرنے میں غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری سے کام لیا گیا، یاد رہے کہ عمران خان کی نامزدگی کیلئے تاریخ گزر جانے کے بعد ان کا نام ناروے کی ایک قدرے غیر معروف تنظیم ’’ پاکستان ورلڈ الائنس ممبرز‘‘ نے نامزد کیا تھا اور جس نارویجن شہری گیسئیر پستاد نے انہیں نامزد کیا تھا وہ ناروے کی مذکورہ سیاسی جماعت کے رکن ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ مبینہ طور پر اس نامزدگی کا استحقاق بھی نہیں رکھتے تھے، یہاں یہ بات بھی معلوماتی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ قبل ازیں 2013ء کے نوبیل پرائز کے لئے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر کے طور پر نواز شریف کو باضابطہ طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ اب شاید بانی پی ٹی آئی کا نام بھیجنے والوں نے یہ سوچ کر ان کا نام بھیجا ہو کہ پاکستان میں اپوزیشن لیڈر یا اپوزیشن جماعت کے بانی کو امن کے اس نوبیل پرائز کے لئے نامزد کیا جا سکتا ہے بے شک امن کے لئے اس کی کوشش اتنی ہی ہو کہ اس نے ماضی قریب میں اپنی سیاسی ضرورت کے لئے احتجاج کے دوران اپنے ہی ملک کے دارالحکومت کی شاہراہوں اور پارکوں میں لگے ہوئے خوبصورت اور سرسبز درختوں کو آگ ہی لگوائی ہو۔ یا پھر سر پر بالٹی رکھ کر عدالتوں میں پیش ہوتا رہا ہو۔ یا پھر اپنے ہی ملک کے خلاف اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کو خطوط لکھ چکا ہو یا پھر ریپ کی وجہ عورتوں کا لباس قرار دے چکا ہو۔