Column

مرد اور عورت پر سونپی گئی ذمہ داریاں

یاسر دانیال صابری
مرد اور عورت کی ذمہ داریاں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں اور ان کا کردار معاشرتی اور مذہبی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ مرد پر فرض ہے کہ وہ اپنے خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرے اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرے۔ وہ خاندان کی روحانی اور اخلاقی رہنمائی کا بھی ذمہ دار ہے۔ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کی دیکھ بھال کرے، بچوں کی تربیت کرے اور اپنے شوہر کے ساتھ تعاون کرے۔ عورت خاندان میں محبت، سکون اور ہم آہنگی کی فضا قائم رکھتی ہے ۔ دونوں کی مشترکہ ذمہ داریوں کے ذریعے ایک کامیاب خاندان اور معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
مرد اور عورت کے رشتہ کی پیچیدگیاں اور ان کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہمارے معاشرتی ڈھانچے کا ایک اہم جزو ہیں۔ مرد اور عورت خاندان کے دو بنیادی ستون ہے۔ اسلامی تعلیمات میں مرد اور عورت کے رشتہ کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے، اور دونوں کو مختلف کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں پر بحث ہوتی رہتی ہے، مگر اکثر اس بحث کا رخ تنقید اور الزام تراشی کی طرف مڑ جاتا ہے، جو کہ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
ہمارے معاشرہ انجوئے کے لئے فیشل ایبل محبوبہ تلاش کرتا ہے اور نکاح کے لئے سادہ اور کردار والی لڑکی سے شادی چاہتا ہے۔ ہمارا معاشرے میں دوسروں کی لڑکیاں باعث ہوس سمجھتا ہے۔ ہم کس دور میں جی رہے ہیں، ہماری حرکات اور سکنات اتنی ماڈرن ہیں کہ دوست سے بہن باتیں کرتی ہے، مگر شرم کا پردہ ختم ہے، اللہ ہم سب کو توفیق دے۔
اسلام میں مرد اور عورت دونوں کے کرداروں کا ایک واضح اور متوازن ڈھانچہ ہے۔ مرد کو جہاں خاندان کا کفیل اور رہنما بنایا گیا ہے، وہاں عورت کو بھی انتہائی عزت اور اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن اور حدیث میں دونوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے۔ مرد کا کردار اپنے خاندان کے حوالے سے ایک راہنما کا ہوتا ہے، جبکہ عورت کا کردار ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے روپ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں کا رشتہ ایک دوسرے کی مدد اور حمایت پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ ایک مکمل معاشرتی نظام قائم ہو سکے۔
اسلام میں مرد اور عورت کے رشتہ کو مضبوط بنانے کے لیے پردے، حیا، اور احترام کی تعلیمات دی گئی ہیں۔ حضرت محمدؐ اور حضرت فاطمتہ الزہرہؓ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، عورت کے لئے فاطمی روپ جس میں پردے، حیا اور تقویٰ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ حضرت فاطمہؓ کا طرز زندگی ہمارے لیے ایک رہنمائی ہے، جس سے ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں کا رشتہ باہمی عزت اور احترام پر قائم ہونا چاہیے۔
اسی طرح مرد کو بھی نظر نیچے رکھنے اور حیا کے حکم دئیے گئے ہیں۔ اسلام میں مردوں کو بھی آنکھوں کے پردے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی نگاہوں کو پاک رکھیں اور عورتوں کی عزت اور وقار کا خیال رکھیں۔ یہ نہ صرف عورت کی عزت کے تحفظ کے لیے ہے بلکہ مرد کی شخصیت کے ارتقاء کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسلام نے پردے کا حکم دونوں مردوں اور عورتوں کے لیے دیا ہے، اور یہ معاشرتی اخلاقی قدروں کو مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے۔
دور جدید میں عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے، اور یہ بہت ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو ان کے حقوق دئیے جائیں۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جائے یا ایک دوسرے کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے۔ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئیں۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، تو نہ صرف مرد اور عورت کے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ پورا معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔
ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر ہم کسی شخص کو غلط کرتے دیکھیں تو اسے اصلاح کی دعوت دیں، نہ کہ صرف اس پر تنقید کریں۔ اسلام میں اصلاح کا عمل نہایت اہم ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنی امت کو نیکی کی دعوت دینے کی تلقین کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اور دوسروں کی بھی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ہم سب ایک بہتر معاشرتی زندگی گزار سکیں۔
دور جدید میں میڈیا، فلموں اور سوشل میڈیا پر ہونے والی غیر ذمہ دارانہ باتیں اور تصاویر مرد اور عورت کے تعلقات میں خرابی پیدا کر رہی ہیں۔ اس سے ہمارے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اسلام کی تعلیمات کو اپنانا ہوگا تاکہ ہم معاشرتی سطح پر باہمی احترام اور محبت قائم کر سکیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کا احترام کریں اور اپنے تعلقات کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں درست کریں، تو معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
اسلامی تعلیمات میں مرد اور عورت دونوں کے کردار اور ذمہ داریوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ جب دونوں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے نبھاتے ہیں تو پورا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ اس طرح، مرد اور عورت کے درمیان تعلقات میں توازن قائم ہوتا ہے اور معاشرتی سکون اور خوشحالی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
اسلام نے مرد اور عورت کے لیے جو حدود مقرر کی ہیں، ان کا مقصد معاشرتی توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ حدود نہ صرف ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کو متعین کرتی ہیں بلکہ ان کی عزت اور وقار کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں اپناتے ہیں، تو نہ صرف ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ پورا معاشرہ بھی مضبوط اور خوشحال ہو گا۔
ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی اور اپنے آپ کو اصلاح کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک بہتر معاشرتی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ عزت، محبت اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنی ہوگی۔
آخر کار، مرد اور عورت کے درمیان مقابلہ یا جنگ کی ضرورت نہیں، بلکہ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں، تو نہ صرف ہمارے رشتہ میں بہتری آئے گی بلکہ پورا معاشرہ بھی خوشحال اور مضبوط ہو گا۔ یہی وہ معاشرہ ہوگا جہاں مرد اور عورت دونوں اپنے حقوق کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور تعاون سے زندگی گزاریں گے۔

جواب دیں

Back to top button