ColumnTajamul Hussain Hashmi

بابا ایدھی

تجمل حسین ہاشمی
بابا ایدھی کی یادیں اس رمضان بھی آتی رہیں۔ بابا ایدھی نے ساری زندگی صلہ رحمی کا درس دیا، لوگوں کے غموں کو اپنے سینے میں جگہ دی، انسانیت کے ساتھ کھڑا رہے۔ انسانیت کی تلقین کا درس دونوں جہانوں کے سردار حضور ؐ نے دیا۔ حضورؐ پاک کے کردار کی غیر مسلم بھی گواہی دیتے تھے۔ حضورؐ بہت پیارے اور محبت کرنے والے اللہ پاک کے محبوب تھے۔ بابا ایدھی نے حضورؐ کے فرمان کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ بابا ایدھی کی یادگار پینٹنگ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ ماڑی پور جانے والی سڑک پر بنی بابا ایدھی کی پینٹنگ پر شہریوں کا ایسا گندہ فعل نظر آیا جو کسی قوم، مہذب معاشرہ یا افراد کے غیر مہذب ہونے کی منہ بولتی تصویر ہے۔ معاشرہ کی تبدیلی کیلئے فرد کی سوچ کا مثبت ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اگر افراد کے دماغی رجحانات ان کی منفی سوچ کے زیر اثر ہے تو اس کے کیا اثرات منفی ہی ہوں ہونگے، اس حوالہ سے ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے سرکاری سطح پر کوئی اقدامات نہیں کئے۔ یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ لوگوں میں منفی رجحانات میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اعلیٰ سرکار کو معاشرہ میں منفی تبدیلی کیوں سمجھ نہیں آ رہی؟ معاشرہ کا مطلب ’’میں اور آپ‘‘ ہیں۔ افراد کے رہن سہن کا نام معاشرہ ہے۔ اگر میں اور آپ ’’میں جب تفریق و تقسیم بڑھ جائیگی تو معاشرہ میں منفی رجحانات میں اضافہ نظر آئے گا۔ بابا ایدھی نے اس تفریق کو کم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ریاست اپنے قوانین سے سچی آواز کو دبانا چاہتی ہے لیکن تفریق و تقسیم کبھی بھی سخت قوانین سے ختم نہیں ہوگی بلکہ عدل و انصاف اور مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے ممکن ہے۔ تفریق و تقسیم سے مظلومیت اور انتشار میں اضافہ ہوتا ہے اور بابا ایدھی اس انتشار کو کم کر رہا تھا۔ بابا ان مظلوموں ، فریادیوں کا مدد گار رہا۔ ریاست عدل و انصاف کی فراہمی میں ناکام ہے جس کی وجہ سے افراتفری اور دہشت گردی اور لسانیت کو تقویت ملی رہی ہے، جس سے ریاست کے معاشی اور سکیورٹی مشکلات میں اضافہ ہے ۔ ریاست ان مافیا کو کنٹرول کرنا ہو گا جو ریاست کے امیج کو داغ دار کر رہے ۔ ہزاروں افراد فلاحی اداروں کی ذمہ داری ہیں لیکن ریاست عوامی سہولتوں کی فراہمی میں ناکام ہورہی ہے۔ حقیقت میں فلاحی ادارے اس وقت مظلوموں کا سہارا ہیں۔ ریاست کو ان کا بوجھ اٹھانا چاہئے لیکن ان کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ بابا ایدھی نے عوامی خدمات کی کئی مثالیں قائم کی ہیں۔ ایسی مثالیں تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں ۔ لاوارث بچوں کی پرورش ، یتیم بچوں کو بابا کا درجہ دیا اور کئی بے اولاد خاندانوں کی گود کو ہرا کیا، ساری زندگی ایک کمرا میں گزار دی۔ کبھی حاکم سے مدد نہیں مانگی بلکہ ریاست کی طرح بابا غریبوں کے ساتھ کھڑا رہا۔ دنیا بھر میں بڑا خدماتی ایمبولنس سسٹم بابا جی کا تھا۔ مجھے تفصیل کا کم علم ہے لیکن ایک واقعہ مسلم لیگ ن کے رہنما نے بتایا جو مجھے تھوڑا یاد رہ گیا ہے، بابا ایدھی کراچی کے کسی مقام پر جس کا مجھے یاد نہیں چندہ جمع کر رہے تھے۔ وہاں ان کا کیمپ لگا ہوا تھا۔ چند میٹر پر اس وقت میاں نواز شریف بھی آئے ہوئے تھے۔ شاید کوئی حادثہ ہوا تھا۔ کسی نے میاں صاحب کو بتایا کہ بابا ایدھی ہمارے سے تھوڑی دور چندہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ میاں صاحب نے رہنما کو
کہا کہ ان کو جا کر میرا بتائو۔ دو چار رہنما پیدل بابا ایدھی کے پاس گئے اور ان کو میاں صاحب کا بتایا کہ وہ یاد کر رہے ہیں۔ بابا جی نے کہا ان کو مجھے سے کیا کام ہے؟ مجھے تو ان سے کوئی کام نہیں، اگر ان کو مجھ سے کام ہے تو میرے کیمپ پر آ جائیں۔ رہنمائوں نے میاں صاحب کو جاکر بتایا تو میاں صاحب خود چل کر بابا ایدھی سے ملنے گئے۔ میاں نواز شریف ان کی تعظیم کیلئے ان کے پاس گئے۔ ان کا احترام کیا۔ ہمیں بابا ایدھی کی خدمات پر پھول نچھاور کرنے چاہئیں نہ کہ ان کی تصویر پر گٹکا کی پیکیں مارنی چاہئیں۔ ہماری نئی نسل کو بابا ایدھی کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ اچھا شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہئے۔ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، اب اس کو اچھا رکھنے اور کرنے کی ذمہ داری ہماری بنتی ہے، ویسے ہم احتجاجوں میں بہت آگے آگے ہیں لیکن کبھی اپنے پڑوسی کا بھی حال پوچھ لیا کریں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں تمہارے منہ سے نکلے ہوئے ایک لفظ کا بھی حساب ہوگا۔ چند منٹ کیلئے سوچیں کہ ہمارا حال کیا ہوگا۔ ہم سارا دن نافرمانی کرتے ہیں۔ کتوں کو پانی پلانے کے بدلے جنت چاہتے ہیں۔ محفلوں میں قرآن و حدیث سنا کر لوگوں کو خود کے اچھا ہونے کا تاثر دیتے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے پرامید ہیں لیکن اللہ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے ہیں، اللہ کا فرمان ہے کہ سچ بولو، نماز ادا کرو، اچھے عمل کرو، کسی کا حق مت کھائو لیکن ہم کہاں باز آتے ہیں، اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہماری فطرت میں شامل ہے، ظلم کرنا اور ریاست کے مال پر ڈاکا ڈالنا، اپنی چودھراہٹ میں شریف اور بے سہارا لوگوں کو نشانہ بنانا عام ہوگیا ہے۔ ریاست ان کیخلاف ہارڈ ایکشن لے نہ کہ ہم ان مافیاز کا سہارا بنیں جو آئین کو پامال کر رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button