تنگ نظری چھوڑیں، عوام کا سوچیں

شاہد ندیم احمد
اس ملک میں ہر سال ہی قو می دن آتے ہیں اور ہر سال ہی بڑے جوش و خروش سے منائے بھی جاتے ہیں ، اس میں جہاں ہر شعبہ زندگی میں اہم خد مات دینے والوں کو ایوارڈ ز سے نوازا جاتا ہے ، وہیں قوم کے نام اہم پیغامات بھی دئیے جاتے ہیں، گزشتہ قو می دن پر بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملا ہے، ایک طرف ایوارڈز کی بھر مار تو دوسری جانب تجدید عہد وفا کے پیغامات دیئے جارہے تھے ، وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان کو با بائے قوم کے تصور کردہ قوم میں بدلنے کے لیے ثابت قدمی اور اجتماعی وژن کی ضرورت ہے ، جبکہ صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ پاکستانی اپنے اختلاف سے بالا تر ہو کر تقسیم اور منفی رجحانات کی کوشش کر یں اور طے شدہ قومی ہدف کے حصول کی کوشش کریں ، یہ وزیر اعظم اور صدر کے قومی دن پر پیغامات قومی عہد ہی ہیں ،لیکن ان کی تشکیل کیلئے کوئی سنجیدگی سے اقدامات کیے جارہے ہیں نہ ہی ایسے کوئی عملی اقدامات ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک عرصہ دراز سے بار ہا اقتدار میں آنے والے ایک ہی عہد وفا ،ہر قومی دن پردہرائے جارہے ہیں اور عوام کو بیوقوف بنائے جارہی ہیں ، لیکن اس عہد وفا پر کوئی عملی اقدامات نہیں کر پارہے ہیں ،اس طرح کے زبانی کلامی عہد وفا سے کچھ حاصل کیا جاسکے گانہ ہی عوام کوکچھ دیا جاسکے گا ، اس عہد وفا سے آگے بڑھناہو گا ،اس پر عمل بھی کر نا ہو گا ، یہ زبانی کلامی ڈنگ ٹپائو پروگرام زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں ہے ، حکو مت کب تک میڈ یا اور میڈ یا والوں کو کچھ دبا کر اور کچھ دے دلا کر سب اچھا ہو رہا ہے اور سب اچھا ہو نے جارہا ہے ، کے اشتہارات چلا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھو نکتے رہیں گے اور کب تک نمائشی اعلانات و اقدامات سے عوام کو بہلاتے رہیں گے۔
عوام اتنے بھولے نہیں رہے ہیں کہ بار بار آزمائے کی ہی باتوں کو اب سمجھ نہ پائیں ، عوام جا نتے ہیں کہ ان کے پاس اختیار ہے نہ ہی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں ، اس لیے ہی ایک پیج کے سہارے چل رہے ہیں ، اس ایک پیج سے جس دن
بھی سرک گئے ، دھڑم سے منہ کے بل گر جائیں گے ،اس لیے ہی عوم کی حمایت حاصل کر پارہے ہیں نہ ہی عوام ان پر اعتبار کر پارہے ہیں ، بلکہ اصرار کررہے ہیں کہ ان کی جان چھوڑ ئی جائے اور عوام کو اپنا فیصلہ خود کر نے دیا جائے ، لیکن وہ کبھی ایساکر نے دیں گے نہ ہی عوام کی حقیقی قیادت آگے آنے دیں گے ، کیو نکہ جس دن عوامی قیادت بر سر اقتدار آگئی ،ان کو بھاگنے کی جگہ ملے گی نہ ہی کہیں خود کو بچا پائیں گے ، اس لیے ہی ہر چیز کو دائو پر لگایا جارہا ہے اور اپنے اقتدار کو دوام دیا جارہا ہے ، لیکن یہ اقتدار کو دوام دینے کی سوچ ہی اتحاد میں دراڑ ڈال رہی ہے اور ایک دوسرے میں اختلاف بڑھارہی ہے، اس حکو مت کے ہی اتحادی اپنے پر جھاڑنے لگے ہیں، ایک او نچی اُڑان کی تیاری کر نے لگے ہیں ۔
اس نئی اُڑان میں پیپلز پارٹی سب سے آگے نظر آنے لگی ہے ، بلاول بھٹو زرداری ویسے تو سب کوہی تنگ نظری کی سیاست چھوڑ کر عوام کے سو چنے کا سبق دئیے رہے ہیں ، لیکن خود صبح و شام وزارت عظمیٰ کی سو چ سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں ، جبکہ صدر زرداری ایوان صدر میں اپنی بیٹے کی سوچ کو پائے تکمیل تک پہچانے میں ایڑی چوٹی کازور لگا رہے ہیں اور اپنی خرابی صحت کے باوجود اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں کو شاں نظر آرہے ہیں ، وہ اپنی زندگی میں ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے ایک بار بلاول بھٹو زرداری کو وزیر عظم بنے دیکھنا چاہتے ہیں ، اس کیلئے وزیر عظم شہباز شریف کی کرسی ہلائی جارہی ہے اور ایک پیج سے مسلم لیگ ( ن) سرکائی جارہی ہے ،اس میں پیپلز پارٹی پس پردہ پیش پیش ہے، اس کا اپوزیشن کتنا ساتھ دے گی یا بالکل ہی نہیں دے گی،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ، لیکن ایک بات طے ہے کہ گرتی دیوار کو دھکا دینے میں سارے ہی شامل ہو جائیں گے ۔
اس کیلئے ایک سٹیج سجایا جارہا ہے اور اس سٹیج پر ساری اپوزیشن کو لایا جارہا ہے ،اس میں مو لا نا فضل الرحمن ہی سب سے آگے نظر آئیں گے ، کیو نکہ مولا نا فضل الرحمن کا کردار حکو مت بنانے اور گرانے کے ساتھ سہارا دینے بھی سب سے ہی نمایاں ہوتا ہے ، اس بار بھی عید کے بعد ان کا ایسا ہی کچھ ملا جلا کردار دکھائی دئیے رہا ہے ، لیکن یہ سب کچھ ملک کے مفاد میں بہتر نہیں ہے ، کیو نکہ ملک کسی انتشار ، کسی احتجاج کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ، اس وقت حکو مت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کو گرانے ،دیوارسے لگانے اورسیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے بجائے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہو گا ،ایک دوسرے کے ساتھ ایک ٹیبل پر مل بیٹھنا ہو گا، ایک دوسرے کے تحفظات کو نہ صرف بڑے تحمل سے سننا ہو گا ،بلکہ ان تحفظات کو دور بھی کر نا ہو گا ، اگر آج بھی اہل سیاست نے تنگ نظر چھوڑ کر عوام کا نہ سوچا اور اپنے معاملات کو سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر حل نہ کیاتو اس کا موقع دوبارہ نہیں ملے گا ،ایک بار پھر سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ،ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے اور اقتدار کی بازی کوئی اور ہی جیت جائے گا۔