پھانسی سے نشان پاکستان تک

تحریر : محمد ناصرشریف
والدہ نے بدلہ لینا نہیں سکھایا اسی لئے کہتا ہوں جمہوریت بہترین انتقام ہے، یہ الفاظ ہیں بلاول بھٹو زرداری کے، جو انہوں نے 21فروری 2025ء کو دہرائے تھے، اور وہ گاہے بہ گاہے یہ بات اداروں اور عوام کے سامنے دہراتے رہتے ہیں اور پیپلز پارٹی جمہوریت کو بہترین انتقام اور انتظام دونوں کے طور پر لیکر آگے چل رہی ہے اور وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہوکر انتقام بھی لے رہے ہیں اور اپنے لئے بہترین انتظام کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ سفر بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایسی ایسی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں جس کا تصور کبھی محال تھا۔5جولائی1977ء کو جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ احمد رضا قصوری نے ایک ہفتے بعد لاہور کے سیشن جج کی عدالت میں نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا استغاثہ دائر کر دیا۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے ہائیکورٹ میں درخواست دی کہ ملزمان طاقتور ہیں، اس لئے عدالت اپنی اوریجنل کریمنل جیوریسڈکشن میں اس مقدمے کو اپنے پاس ٹرانسفر کر لے۔ لاہور ہائیکورٹ نے ساتھ ایف آئی آر لگی دیکھ کر ایڈووکیٹ جنرل کو بلایا۔ ان کے بجائے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل راشد عزیز خان پیش ہوئے، جنہوں نے اپنے کلائنٹ، پنجاب حکومت، سے رہنمائی لینے کیلئے 15دن کی مہلت مانگی۔ 15دن بعد انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم کیس لے کر آ رہے ہیں۔ تو ہم نے اپنا استغاثہ اس میں ضم کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 3ستمبر 1977ء کو پہلی مرتبہ تعزیرات ِپاکستان کے تحت ’’ قتل کی سازش‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن10روز بعد ان کی ضمانت ہو گئی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے 13ستمبر کو ثبوتوں کو ’’ متضاد اور نامکمل’’ قرار دیتے ہوئے بھٹو کی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔17ستمبر کو نواب محمد احمد قصوری کے قتل میں انہیں پھر گرفتار کیا گیا مگر اس بار مارشل لا قوانین کے تحت اور پھر ایک ماہ بعد بھٹو کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا اور عدالت نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی، جس کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979ء کو رات کے دوسرے پہر پھانسی دے دی گئی۔
سندھ کے سیاستدان سر شاہنواز بھٹو کے ہاں 5جنوری 1928ء کو پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد برکلے اور آکسفورڈ جیسی جامعات سے پولیٹیکل سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے بعد لنکنز ان سے وکالت پاس کی۔ 1953ء میں کراچی واپس آئے اور قانون پڑھانے کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ وکالت بھی کی۔1957ء اور 1958ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے سرکاری وفود میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اسی سال جنرل محمد ایوب خان نے 27اکتوبر کو مارشل لا لگایا تو اس 30سالہ نوجوان وکیل کو اپنا وزیر تجارت بنایا۔ بعد میں چھ سات وزارتیں ان کے پاس رہیں۔ 24جنوری 1963ء کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ بنے لیکن 17جون 1966ء کو ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی راہیں جدا ہو گئیں۔30نومبر 1967ء کو اپنی نئی سیاسی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، کے قیام کے صرف تین سال بعد 1970ء کے انتخابات میں موجودہ ( یا مغربی) پاکستان میں کل 138میں سے 81نشستیں حاصل کیں اور خود 5حلقوں سے منتخب ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے کل 300میں سے 160سیٹیں جیتی تھیں اور حکومت بنانے کی حق دار تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سی علیحدہ ملک بن گیا۔20دسمبر 1971ء کو جنرل یحییٰ خان، جو 1969ء میں ایوب خان کے بعد برسراقتدار آئے۔ انہوں نے آئین کی عدم موجودگی میں بطور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اپنے اختیارات ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر دیئے۔ 20اپریل 1972ء کو عبوری آئین کے نفاذ کے ساتھ یہ مارشل لا ختم ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو نے 21اپریل 1972ء کو دوسری مرتبہ صدر پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔14اگست 1973ء کو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین نافذ ہوا تو بھٹو نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف اٹھایا۔
بھٹو کا وژن ایک ترقی پسند، خود مختار اور مساوی پاکستانی معاشرہ بنانے کا تھا۔ یہ وژن ان کے مشہور نعرے ’’ روٹی، کپڑا اور مکان’’ میں واضح نظر آتا ہے۔ اپنے دورِ حکومت میں، انہوں نے زرعی اصلاحات اور اسٹریٹجک صنعتوں کو قومیا لیا۔ وہ صرف ایک سیاستدان ہی نہیں، بلکہ ایک مدبر بھی تھے جنہوں نے پاکستان کو مسلم دنیا کا رہبر اور عالمی سطح پر ایک اہم کردار ادا کرنے کی راہ دکھائی۔ انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک نئے دور میں لے جانے میں مدد دی، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلانے اور ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔
2024 ء میں پیپلز پارٹی کو ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے حوالے سے صدر آصف زرداری کے 2011ء کے صدارتی ریفرنس کی سماعتوں کے بعد کامیابی اس وقت ملی جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی تفصیلی تحریری رائے میں کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو منصفانہ اور شفاف ٹرائل کا موقع فراہم نہیں کیا اور شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور تقریباً 45 سال بعد یہ ثابت ہوا کہ بھٹو کی پھانسی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا۔جمہوریت بہترین انتقام کی مثال گزشتہ روز مزید واضح ہوئی جب صدر آصف زرداری نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے 45سال بعد ملک کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’ نشان پاکستان’’ سے نوازا اور ان کی بیٹی صنم بھٹو نے یہ اعزاز وصول کیا ۔ تقریب میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی و قومی خدمات بیان کئے جانے کے دوران صنم بھٹو جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور آبدیدہ ہوگئیں۔ اس موقع پر ایوان صدر ’ جئے بھٹو اور زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اعلی ترین سول اعزاز ملنا تاریخ کا اہم سنگ میل بھی ہے اور یہ بتاتا بھی ہی کہ اگر آپ کسی کے ساتھ ناجائز کرو گے تو آپ کی داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔۔۔۔۔۔۔
بلاول بھٹو زرداری اس اعزاز کو بھٹو ازم کے نظریے کی ایک اور فتح قرار دے رہے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل قریب میں اپنے نانا کے نظریات پر عمل کرکے بلاول بھٹو پاکستان کو مسائل کے موجودہ گرداب سے نکالنے کیلئے کردار ادا کر پائیں گے؟۔