Columnمحمد مبشر انوار

ہونی۔ تو ہو کر رہے گی!!!

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
ایک گزشتہ تحریر ’’ پاکستان کہاں کھڑا ہے‘‘ میں لکھ چکا ہوں کہ عالمی سطح پر بدلتے حالات،جغرافیائی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں او ر بیشتر ممالک اس کے لئے اپنی ترجیحات کا تعین ازسر نو کر رہے ہیں ،ٹرمپ انتظامیہ کی متوقع حکمت عملی کے تحت،اپنی ترجیحات کو اس کے ہم آہنگ کرکے،نہ صرف ثمرات کشید کرنے کی تگ و دو میں ہیں بلکہ ہر صورت اپنی ریاست و شہریوں کے لئے بہتر مستقبل یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،جبکہ پاکستان ہنوز اپنے داخلی معاملات سے عہدہ برآء ہونے کی سعی لاحاصل میں ہے۔ معاملہ انتہائی سادہ ہے کہ اگر پارلیمانی جمہوری نظام اس ملک میں نافذ العمل ہے تو پھر جمہوری روایات کو بغیر کسی رکاوٹ کے پنپنے دیں بلکہ سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے انہیں کھیل کے مروجہ اصول باور کروائیں لیکن یہاں تو معاملات کلی طور پر برعکس دکھائی دیتے ہیں کہ سیاستدانوں کی اکثریت جمہوری روایات کا گلا گھونٹ کر اپنے لولے لنگڑے اقتدار کو ترجیح دیتی نظر آتی ہے جبکہ ریاستی مشینری،کا کردار انتہائی مایوس کن ہوتا جارہا ہے اور ریاستی مشینری کی جانب سے من پسند سیاستدانوں کی ہر طرح سے مددو معاونت کی جاتی ہے ،جس کے پس پردہ یقینی طور پر ذاتی مفادات کا حصول بھی بہرطور موجود ہے۔ یا دوسری صورت یہ ہے کہ ہائبرڈ نظام کے چہرے سے جمہوری رنگ و روغن کو اتار کر پس پردہ آمریت ،خواہ سیاستدانوں کی ہو یا آمروں کی،اس کو واضح کر دیا جائے تا کہ نہ صرف شہریوں بلکہ عالمی سطح بھی سب حقیقت سے بلا شک و شبہ آگاہ ہو جائیں کہ پاکستان میں کون سا نظام روبہ عمل ہے،یہ قیاس کی صورت ختم ہو تا کہ پاکستانی شہری اس کے خلاف بروئے کار آ سکیں تو دوسری طرف عالمی سطح پر بھی متعلقہ احباب سے کھل کر بات ہو سکے لیکن ایسا نہیں ہو رہا اور معاملات کبھی سیاستدانوں کی طرف تو کبھی ان کے مددگاروں کی طرف جھول رہے ہیں۔بہرکیف اس سے ہٹ کر عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو حالات گزشتہ چند دنوں میں یکدم بدلتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار میں آتے ہی،معاملات جس قدر تیزی کے ساتھ ٹھنڈے ہوتی دکھائی دے رہے تھے،ان میں یکدم تیزی دکھائی دے رہی ہے،وہ خواہ یوکرین کا محاذ ہو یا غزہ کی صورتحال ہو،ٹرمپ کی جنگ بندی خواہش ،ناتمام دکھائی دے رہی ہے۔
علاوہ ازیں!ٹرمپ کی خواہشات کاتذکرہ کرتے ہوئے ،اپنی تحریر ’’ تقدیر غزہ‘‘ میں لکھا تھا کہ سوال مگر یہ ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات کا مقصد کیا ہے اور اس سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟ بظاہر تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ غزہ سے متصل سمندر میں موجود معدنی ذخائر، جن کو اسرائیل پہلے ہی بغیر کسی حق کے اپنے تصر ف میں لارہا ہے،پر نظر ہو سکتی ہے لیکن یہ دلیل اب دل کونہیں لگتی کہ توانائی کے کئی ایک متبادل سامنے آ چکے ہیں اور مستقبل قریب میں قرین قیاس ہے کہ معدنی وسائل پر انحصار انتہائی کم ہو جائے گا،تو پھر غزہ پر بنفس نفیس قدم جمانے کی کیا ضرورت ہے؟ غزہ کو پڑوسی ممالک یا دیگر ممالک میں ہجرت کرنے پر کیوں مجبور کیاجا رہا ہے؟ذہن میں اس سوال کے کلبلانے سے معاملات وہ نہیں جو دکھائے جار ہے ہیں بلکہ کہانی کچھ اور ہی دکھائی دیتی ہے جس کا تعلق بہرطور توسیع پسندی کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتایا توسیع کو مستقل کرنے کی خو کارفرما نظر آتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے جائیں۔ بالفرض اگر امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھال لیتا ہے تو یہاں کے معاملات کیا ہوں گے؟کیا غزہ کے مسلمان واقعی یہاں سے ہجرت کر جائیں گے؟کیا غزہ میں امریکی یہودی شہری آباد ہوں گے؟امریکہ اس پٹی میں کیسی معاشرت متعارف کروائے گا؟کیا اس پٹی کو مستقلا اپنی عسکری چھائونی میں تبدیل کرے گا؟کیا قطر،بحرین یا دیگر مشرق وسطیٰ میں موجود اپنی فوجوں کو نکال لے گا؟ویسے امریکہ ان ممالک سے اپنی فوجوں کو نکال کر کیوںغزہ میں آباد کرے گا کہ ان ممالک میں موجود امریکی فوجیوں کا سارا خرچ تو یہی ممالک اٹھا رہے ہیں،پھر امریکہ کو کیا ضرورت ہے کہ اپنے ان فوجیوں کا یہاں سے اٹھا کر غزہ میں بٹھائے؟بالفرض غزہ کو فوجی چھاؤنی بنانا ہی مقصود ہے کہ جہاں سے نہ صرف مشرق وسطی کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا جائے بلکہ اپنے مخالفوں کی تمام تر مہم جوئیوں کا بروقت موثر توڑ کیا جا سکے یا انہیں باز رکھا جا سکے جبکہ ان ممالک میں موجود اپنے فوجیوں سے بوقت ضرورت ممکنہ طوربراہ راست کنٹرول سنبھالا جا سکے۔ مراد یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے غزہ میں بیٹھ کرتمام کارروائیاں براہ راست اور قریب سے کی جائیں اور اسرائیل کی سرپرستی کے لئے اپنے سازو سامان و لاؤ لشکر کے ساتھ ہمہ وقت یہاں موجود رہا جائے ،پھر کیا اسرائیل کو مسلم ممالک سے تسلیم کروانے کی ضرورت باقی رہے گی؟البتہ جیسے اسرائیل فلسطین کو تقریبا ہڑپ کر چکا ہے،بعینہ ویسے ہی ماضی کے حوالے دے کر،تاریخ سے ثابت کرتے ہوئے،اپنی توسیع پسندی پر عمل درآمد کرتا رہے گا جبکہ مسلم ممالک سوائے ’’ جنگ بندی‘‘ کی کوششوں کے،عملا کچھ کرنے سے قاصر ہوں گے،لیکن اسکے لئے پہلے غزہ کی تقدیر کا فیصلہ کیا جانا ہے کیا تقدیر غزہ یہی ہے؟؟۔ امریکی خواہشات میں سب سے بڑی خواہش بہرطور ایک ہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کے لئے زندگی اجیرن رکھی جائے جبکہ مسلمانوں کے لئے ظلم و ستم کا بازار گرم رکھنے والے ہاتھوں کو مسلسل کمک پہنچائی جائے،اس مقصد کے لئے نیتن یاہوکا ہر گناہ معاف دکھائی دیتا ہے وگرنہ یہی مظالم کسی مسلم ریاست کی طرف سے اٹھے ہوتے تو اب تک اس ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی ہوتی، اس کے وسائل کو ضبط کیا جا چکا ہوتا اور اسے از من قدیم دور کی شکل دی جا چکی ہوتی،بعینہ جیسے کسی زمانے میں عراق کی ہو چکی،افغانستان کی ہو چکی،لیبیا ،شام کے بعد اب سوڈان میں ہور ہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اقتدار میں آتے ہی جس تیزی و تندہی سے امن عالم کی جانب بڑھتی دکھائی دے رہی تھی، گزشتہ چند دنوں میں اس کی جھلک واضح طور پر غائب ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ غزہ ،جس کو امن عالم کے لئے ایک فلیش پوائنٹ تصور کیا جار ہا ہے،اسرائیل نے حسب سابق پھر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، نہتے فلسطینیوں کو رمضان المبار ک میں ،خاک و خون میں نہلا دیا ہے گو کہ حماس کی جانب سے اس ظلم کا جواب دیا گیا ہے،حوثیوں کی جانب سے جوابی حملہ ہوا ہے لیکن کیا بارودی فضا میں امن ممکن ہے؟اسرائیل تو ایک چھوٹا سا ملک ہے،جس کے بیشتر معاملات امریکہ بہادر بذات خود طے کرتا ہے،عربوں کے ساتھ معاملات میں،عربوں کو ایک حد سے بڑھنے نہیں دیتا،اسرائیلی ہر جارحیت کا دفاع ڈھٹائی سے خود کرتا ہے اور اسرائیل کی یہ حالت ہے کہ امریکی جنگ بندی کی خواہش کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے،غزہ میں جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے،سوال مگر یہ ہے کہ کیا اسرائیل امریکی دہرے معیار کے بغیر ایسا کرسکتا ہے؟جنگ بندی کی یہی وعدہ خلافی کسی اور ریاست یا بالفرض حماس ہی کی جانب سے ہوتی تو کیا امریکہ اسی طرح اس کو پی جاتا ؟درحقیقت یہی وہ امریکی دہری پالیسی ہے جو اسرائیل کو اتنی شہ فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں اندھا ،امن عالم کی رتی برابر پرواہ نہیں کرتا۔ یہی صورتحال اس وقت یوکرین کی دکھائی دیتی ہے کہ امریکی صدر نے یوکرین کے صدر کی جو عزت افزائی کر رکھی ہے ،وہ یورپ و برطانیہ میں اس کی ریڈ کارپٹ استقبال یا مرکز نگاہ رکھنے کے باوجود ،بحال ہوتی نظر نہیں آتی اور یوکرنی صدر ایک اچھے بچے کی طرح امریکی و روسی صدر کے مابین ہونے والے مذاکرات کے نتائج پر سوائے رضامندی کے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ جبکہ روسی جارحیت میں ،اس دوران انتہائی شدت دیکھی جا رہی ہے اور روس کی کوشش یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ یوکرین کے اہم ترین حصوں پر قبضہ مستحکم کر لیا جائے بالخصوص بحیرہ اسود سے یوکرین کا براہ راست تعلق مکمل طور پر ختم کرکے ،اس پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا جائے تا کہ کل کو ہونے والے مذاکرات میں 2014ء کی جغرافیائی سرحدوں کے برعکس ،موجودہ قبضے کے مطابق سرحدوں کا تعین ہو سکے اور روس یوکرین کی تجارت پر اثرانداز ہو سکے۔ دوسری طرف گو کہ اسرائیل اپنی بھرپور کوشش میں ہے کہ کسی طرح سے غزہ پر اپنا قبضہ مستحکم کر لے،جس میں وہ تاحال کامیاب نہیں ہو پایالیکن حالیہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد،بنا کسی امریکی تادیبی کارروائی، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اسرائیل امریکی حمایت سے ،نہ صرف غزہ پر قبضہ کرے گا بلکہ گریٹر اسرائیل کے لئے بھی بروئے کار آئے گا اور یوں یہ ہونی،ہو کر رہے گی!!!۔

جواب دیں

Back to top button