Column

پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی اور اس کا حقیقی حل

 

تحریر : قاضی کاشف نیاز
گزشتہ چند ماہ سے ملک عزیز پاکستان میں دہشت گردی خطرناک حد تک روز افزوں ہے۔ صوبہ بلوچستان اور کے پی کے میں سکیورٹی فورسز پر حملے تو آئے دن معمول تھے ہی۔ بیگناہ لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر شہید کرنے کے دل سوز واقعات بھی آئے روز ہو رہے تھے لیکن 11مارچ کو پاکستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ ہوا جس میں کوئٹہ سے چلنے والی جعفر ایکسپریس کو بولان مچھ کے علاقے میں دہشت گردوں نے ہائی جیک کر لیا۔۔ دہشت گردوں نے 400سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا اور 24مسافروں کو شہید کر دیا جن میں کئی مسافر سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔
یہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ سکیورٹی فورسز نے بڑی مہارت سے کامیاب آپریشن کو مکمل کرتے ہوئے باقی تمام مسافروں کو دہشت گردوں کے چنگل سے بخیریت بازیاب کرا لیا۔ اس آپریشن میں صرف ایک سکیورٹی اہلکار شہید ہوا۔۔۔ تاہم اس کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں تھما اور روزانہ سکیورٹی اہلکاروں پر ایسے حملے جاری ہیں۔
پاکستان کے دشمن روز اول سے پاکستان کو ختم کرنے کے ہمیشہ درپے رہے ہیں۔۔ اس کے لیے ہمارا دشمن ایک دن بھی آرام سے نہیں بیٹھا۔۔ وہ کھلی جنگ میں تو ہماری بہادر افواج سے ہمیشہ شکست فاش کھاتا رہا جیسا کہ 1965ء کی جنگ میں پاک فوج نے اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت کے دانت کھٹے کر دیئے تھے۔ اس وقت کے بعد چانکیائی سیاست کے ماہر ہمارے اس مکار دشمن نے اچھی طرح سوچ لیا کہ وہ پاکستان کو کھلی جنگ میں تو کبھی شکست نہیں دے سکتا لیکن سازش، جھوٹا پروپیگنڈا اور قوم کو باہم تقسیم کر کے اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلا کر وہ یہ جنگ آسانی سے جیت سکتا ھے۔ چنانچہ 1965کے بعد وہ پوری تندہی سے اسی ایجنڈے پر پوری تیزی اور سنجیدگی سے اور بڑی برق رفتاری سے عمل کرنے لگا۔۔ سب سے پہلے اس نے مشرقی پاکستان میں لسانیت کے نام پر نفرت کی آگ لگائی اور ہمارے بنگالی بھائیوں کو مغربی پاکستان، پنجاب اور پاک فوج کے خلاف کھڑا کر دیا۔۔ دشمن کی اس سازش میں ہمارے اپنے ہی کچھ لیڈر اپنے مفادات کے لیے اس کے آلہ کار اور سہولت کار بن گئے۔ اور یوں ہماری فوج کو شکست دینا بہت آسان ہو گیا۔۔۔ یقینا اس میں مغربی پاکستان کے لیڈروں،اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی، ممکن ہے ان سے بھی کچھ استحصال ہوا ہو لیکن ایسا استحصال تو ہندو بنیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ بھارت کی مختلف قوموں کے ساتھ شروع دن سے برت رہا ہے جیسا کہ دلت، سکھ اور مسلم کمیونیٹیز کو وہاں دیوار کے ساتھ لگا کے رکھا گیا ہے۔ ان کا قتل عام وہاں معمول ہے۔ نہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ نہ ان کی جان و مال۔ یہ قومیں ہندو بنیے کے ساتھ ایک برتن میں پانی تک نہیں پی سکتیں۔ اس سے بڑا استحصال کسی قوم کا اور کیا ہو سکتا ہے۔ دلت اور بڑی ذات کے ہندوئوں کے مندر تک الگ ہیں۔ دنیا میں خط غربت کی انتہائی شرح سے بھی نیچے لوگ بھارت میں رہتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی یقینا غربت بہت ہے لیکن جتنی غربت انڈیا میں ہے اور جتنے لوگ انڈیا کے بڑے شہروں میں فٹ پاتھوں پر لاکھوں کی تعداد میں سوتے ہیں، پاکستان میں الحمدللہ پھر بھی اتنے کربناک حالات نہیں۔ انڈیا میں غربت کا یہ عالم ہے کہ وہاں گھروں میں لیٹرین کا نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور وہاں سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا منشور ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر گھر میں لیٹرین مہیا کریں گے۔ وہاں اکثر ایسے محلے اور کالونیاں ہوتی ہیں جہاں پورے محلے کے لیے اجتماعی طور پہ صرف دو لیٹرین ہوتی ہیں لیکن افسوس پاکستان نے انڈیا کی اس قدر غربت اور محروم قوموں کے کارڈ کو کبھی استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ انڈیا کی یہ محروم قومیں بھارت کے اسی استحصال اور غربت کے خلاف ایک عرصہ سے علم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں۔ ناگا لینڈ، میزورام، آسام، تامل ناڈو وغیرہ کے بے شمار ضلع ایسے ہیں جہاں حکومت بھارت کی رٹ تک نہیں لیکن پاکستان نے کبھی بھارت کے ان حالات سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ کشمیریوں کی بیداری اور تحریک آزادی ہمارے لیے کافی مددگار ثابت ہوئی جس سے بھارت کو پہلی بار اپنی پڑ گئی اور یوں پاکستان کے لیے کشمیری ایک ڈھال بن کے کھڑے ہو گئے لیکن افسوس یہ ڈھال بھی ہمارے ہی حکمران طبقہ نے کمزور کر دی اور اس میں سب ہی نے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا۔ چنانچہ انڈیا نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس نے اپنی روایتی پروپیگنڈا سازشوں کے ذریعے پاکستان میں نفرت کی آگ ایک بار پھر لگانا شروع کردی، خاص طور پہ اس نے ہمارے دو صوبوں بلوچستان اور کے پی کے کو اپنا اہم ہدف بنا لیا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران طبقہ سے لے کر عوام تک سبھی اپنے دشمن کی سازشوں کو سمجھیں اور ملک کی مضبوطی اور دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کشمیر کی تحریک کو پھر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام پاکستان کی 99فیصد اکثریت کا دین ہے جو ہم سب کو متحد رکھنے کے لیے ایک مضبوط مشترکہ بنیاد ہے۔ ہم سب اپنے اختلافات رنگ، نسل اور قومیت کی بجائے اسلام کے پرچم تلے متحد ہو کر ختم کر سکتے ہیں۔ ہمیں دشمن کے ناپاک عزائم کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ ہمیں باہم لڑا کر ملک کو ایک بار پھر توڑنے کا اپنا ناپاک مشن پورا کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ھم کسی بھی بہانے اور کسی بھی نعرے کی اڑ میں دشمن کے ان عزائم کو پورا نہ ہونے دیں اور ایسی کسی سرگرمی میں شریک نہ ہوں جس سے ملک کے استحکام پر ضرب پڑے کیونکہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ اگر ملک ہی نہ رہا تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
دشمن ہمیں بے دست و پا کر کے ہمارا حال فلسطین و کشمیر، برما اور عراق و شام اور لیبیا جیسا کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا دشمن زبردست سیاہ پروپیگنڈا کا ماہر ہے۔ ابھی حالیہ ٹرین واقعہ میں بھی اس نے کتنی ہی فیک ویڈیوز پھیلائیں۔ کہیں اس نے پوری ٹرین کو جلتا ہوا دکھایا تو کہیں اس نے پاک فوج میں بغاوت کی جھوٹی ویڈیوز پھیلائیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اس ساری دہشت گردی کے پیچھے اصل ہمارا یہی دشمن چھپا ہے۔ اسی دشمن نے ٹرین دہشت گردوں کے حق میں سافٹ امیج بھی پیدا کرنے کی پوری کوشش کی اور یہ تاثر دیا کہ دہشت گردوں نے عام مسافروں کو خود جانے دیا اور صرف سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنایا۔ حالانکہ یہی دشمن بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر بے گناہ لوگوں کو مارتا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گرد اگر اتنے ہی رحم دل اور انسان دوست ہیں تو اس وقت اس کا سافٹ امیج اور انسانیت کہاں تھی۔ اس لیے دشمن کے ایسے کسی بھی پروپیگنڈا سے ہمیں خبردار رہنا چاہیے۔ آئیی آگے بڑھیں۔ اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے اصل دشمن کو پہچان کر اس کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ ہم اپنے غیر متزلزل اتحاد سے ہی دشمن کے عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں۔۔ آج ہمارے بنگالی بھائیوں کی بھی آنکھیں کھل چکی ہیں اور وہ اپنے اس مکار دشمن کو پہچان کر ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ اپنی محبتیں نچھاور کر رہے ہیں لیکن ہمارے لیے ابھی وقت ھے کہ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے اور دشمن اپنا وار کر جائے، ہم اپنے مسائل مل بیٹھ کر حل کریں اور دشمن کی ہمیں باہم لڑا کر ملک تباہ کرنے کی جو گہری سازش ہے، اس کو اپنے اتحاد سے ناکام بنا دیں۔
قاضی کاشف نیاز

جواب دیں

Back to top button