رمضان نشریات کے نام پر بے ہودگی

تحریر : محمد ریاض ایڈووکیٹ
پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بدولت جہاں تفریح و معلومات عامہ میں اضافہ ہوا وہیں پر شو بزنس کے ہر شعبہ میں سرکاری ٹی وی چینل کی اجارہ داری کا خاتمہ بھی دیکھنے کو ملا۔ سیانے کہتے ہیں کہ ہر شے کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ اس سنہری کہاوت کے عین مطابق پاکستانی پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر شتر بے مہار کے مصداق معلومات عامہ، سیاست اور مذہب کے نام پر چلائے جانے والے پروگرامز اپنی تمام تر حدیں عبور کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہے کہ مملکت عزیز میں سیاسی عدم استحکام میں جہاں دیگر عوامل شامل حال ہیں وہیں پر بریکنگ نیوز اور ٹاک شوز کے نام پر پھیلائی جانے والی زہرآلود گفتگو اور تبصروں نے بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ اگر بات کی جائے مذہبی پروگراموں کی، تو عالم آن لائن ایسی طرز کے پروگراموں میں حساس موضوعات کو چھیڑ کر صدیوں سے جاری فرقہ پرستی و شدت پسندی کو مزید دوام بخشا جارہا ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں پروگرامز دیکھنے والے مسلم و غیر مسلم یہ دیکھتے ہیں کہ کیسے مسلمان فروعی مسائل، عبادات، عقائد، نظریات، اہل بیتؓ اور صحابہ کرامؓ جیسی مقدس ہستیوں کے نام پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔
رہی سہی کسر رمضان نشریات کے نام پر چلنے والی بے ہودگی سے پوری کی جارہی ہے۔ رمضان نشریات پروگرامز کس قدر مقدس مہینہ کی برکات کو سبوتاز کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اس کا اندازہ شوبز کی ہی نامور شخصیت بشریٰ انصاری جو رمضان نشریات کے نام پر ہونی والی بھیڑ چال پر یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ ہر دوسرے چینل پر یہی سرگرمی چل رہی ہے۔ لوگوں کا دل بہل جاتا ہے، انہیں اچھا لگتا ہو گا، روزہ آرام سے گزر جاتا ہو گا۔ اب تو بغیر عبادت، قرآن شریف پڑھے بغیر یا تسبیحات کے بغیر، صرف رمضان نشریات دیکھ کر روزہ، روزہ نہیں فاقہ ہوتا ہے۔
سال کے گیارہ مہینوں میں ڈراموں، فلموں اور گانوں اور رقص پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے فنکار بھاری بھر کم معاوضوں پر ان پروگرامز کی میزبانی کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی اداکار اور اداکارہ کو بطور مہمان مدعو کیا جاتا ہے۔ انکے ساتھ ہر طرح کی آزادانہ گفتگو کی جاتی ہے۔ صحت مندانہ سرگرمیوں اور انعام کے لالچ پر بے ہنگم اُچھل کود کرائی جاتی ہے۔ ہماری عوام کو بھی ٹرانسمیشن کا ایسا چسکا لگ چکا ہے کہ چینل سٹوڈیو تک رسائی کے لئے سفارشیں کرائی جاتی ہیں کہ کسی صورت ٹرانسمیشن کا حصہ بن جایا جائے جس کی بدولت گفٹ پیک، کسی اداکار ، اداکارہ کی زیارت کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے مولوی حضرات کی مسلکی اور فروعی معاملات پر لڑائی جھگڑے ایسی تفریح بھی میسر آجاتی ہے۔
ان نشریات میں مذہبی شخصیت کا روپ دھارے رنگے برنگے چرب زبان مداریوں کو بھی مدعو بھی کیا جاتا ہے۔ خود ساختہ ٹیلی فون کالز منظر عام پر آتی ہیں جس پر کئی رنگ باز قسم کے مولوی حضرات مذہب کے نام پر ٹوٹکے، وظائف مہیا کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مذہبی لبادہ اوڑھے ایک رنگ باز شخص بجلی کے بل کم کرنے کے لئے بجلی کے میٹر پر ہاتھ کی اُنگلی سے زم زم لکھنے کا مشورہ دے رہا تھا جس کی بدولت بجلی کا بل کم ہوجائے گا۔ اور وہی رنگ باز شخص دو دن پہلے تین مرتبہ قسم کھا کر یہ دعویٰ کر رہا تھا نبی کریمؐ لاڑکانہ سندھ میں ایک بندے کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ ایک نجی ٹی وی چینل پر آزاد جمیل نے جو وظیفہ بتایا ہے تم بھی پڑھا کرو تنگ دستی دور ہو جائے گی۔ اس من گھڑت خواب کی بناء پر یہ رنگ باز شخص رمضان کے اس خصوصی پروگرام، اس کی خاتون میزبان اور ٹی وی انتظامیہ کو مبارکباد پیش کر رہا تھا کہ نبی کریمؐ کی مقدس بارگاہ میں یہ پروگرام قبولیت کا شرف حاصل کر چکا ہے۔ استغفراللہ۔ اب اس دعوے پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
صحیح حدیث کے مطابق حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہو گا‘‘۔
یہ بھی تلخ حقیت ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی رنگ باز نے من گھڑت خوابوں سے عوام کو بیوقوف بنایا ہو۔
یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اس رنگ باز آزاد جمیل کی باتیں کیا توہین مذہب اور توہین رسالت نہیں ہیں؟ کیا پاکستان میں ان جیسے ڈرامہ باز مولویوں کا احتساب ممکن نہیں؟ کیا علماء حق ان جیسی ڈرامہ بازوں کے خلاف آواز اٹھانا پسند فرمائیں گے؟ کیا پیمرا ان جیسے ڈرامہ بازوں اور ٹی وی چینلز کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ڈرتا ہے؟ چونکہ ماہ رمضان میں شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، مگر شیطان ابلیس بھی ماہ شعبان کی آخری ساعتوں میں جکڑے جانے سے قبل اطمینان میں ہوگا کہ میرے بعد میرے چیلے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ پر میری کمی ضرور پوری کر دیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی سطح پر سخت اقدامات کئے جائیں اور تمام مسالک کے جید علماء کرام کو چاہیے کہ شیروانی اور جبہ پہن کر ٹی وی چینلز کی تفریح کا ایندھن بننے والے علماء کو رمضان نشریات کا بائیکاٹ کرنے کا فرمان جاری کریں اور مذہبی لبادھا اوڑھے رنگ بازوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ تاکہ ماہ رمضان کا تقدس پامال نہ ہو پائے۔