بحران کے بھنورسے نکلنے کی راہ ِتلاش

تحریر : شاہد ندیم احمد
یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا، اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ہے کہ واقعی ایسا ہی ہوا تھا یا نہیں، لیکن ان گھمبیر حالات کا کسی کو ذرا برابر بھی احساس نہیں ہو رہاہے کہ جن سے ملک دوچار ہے، یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے، یہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ جانتے ہوئے بھی ملک کے امن کو برباد کیا جارہا ہے اور اپنے حصول مفاد میں ہر چیز کو دائو پر لگایا جار ہا ہے، ابھی بھی وقت ہے کہ منفی ہتھکنڈے اختیار کرنا، محب وطن افراد کو غدار قرار دینا، دشمنی اور ٹکرائو کے حالات پیدا کرنا، دوسروں کی وفاداری پر شک کرنا چھوڑ دیں اور اپنے اپنے رویے کا جائزہ لیں، اس وقت کے مشکل چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اہل قیادت اور اہل ریاست کو بھی اپنا انداز بدلنا ہو گا اور مل بیٹھ کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنا ہو گا ، کیا ایسا کچھ ہو پائے گا ، اسکا آثار کہیں دور تک دکھائی نہیں دئیے رہے ہیں۔
اس ملک کے اہل سیاست اور اہل ریاست نے اپنی غلطیوں سے نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے، بار بار وہی پرانی غلطیاں ہی دہرائی جارہی ہیں اور بار بار نقصان اُٹھا یا جارہا ہے، لیکن اپنے رویوں کو بدلا جارہا ہے نہ ہی اپنی سوچ میں کوئی تبدیلی لائی جارہی ہے، بلکہ میں نہ مانوں کی ضد ہی اپنائی جارہی ہے، ایک طرف اہل سیاست ورد کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ ہم عوام کے لئے لڑ رہے ہیں، ہم سارا ہی اختیارات عوام کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب مقتدر ہ کو بھی عوام کا ہی درد ستاتا ہے، وہ بھی عوام کیلئے آتے ہیں اور عوام کیلئے ہی جاتے ہیں، یہاں ہر کوئی عوام کی ہی بات کرتا ہے اور عوامی حمایت کے دعوے بھی کرتا ہے، مگر کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے کبھی عوام کی رائے جاننے یا عوام کے دُکھ درد کے بارے کچھ جاننے کی کوشش کی ہو یا اقتدار ملنے کے بعد عوام کو بھی حصہ دار بنایا ہو، یہ سارے عوام کے نام پر آتے ہیں اور اقتدار میں آکر عوام کو ہی قر بانی کا بکرا بناتے ہیں۔
یہ سارے ہی اپنے لیے اقتدار چاہتے ہیں ، یہ سارے عوام کے اوپر اپنا رعب و دبدبا رکھنے کے لیے اختیارات چاہتے ہیں۔ یہ عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لیے اختیار چاہتے ہیں۔ یہ عوام کے حصے کے قومی وسائل لوٹنے اور بیرون ملک سے عوام کے نام پر آنے والی امداد اور قرضوں کو ہڑپ کرنے کے لیے اقتدار چاہتے ہیں، اگر یہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہوں اور عوام کو بااختیار بنانا چاہتے ہوں تو اپنی جماعتوں میں باقاعدہ رکنیت سازی کریں، اپنی جماعتوں کے اندر باقاعدگی سے انتخابات کروا کر عام کارکنوں میں سے قابل لوگوں کو اوپر لائیں، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے ، یہاں جمہوریت کے علمبردار ہی جمہوریت کا گلا دبا رہے ہیں اور جمہور کو بیوقوف بنارہے ہیں ، یہاں پر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے فیصلے جماعتی سربراہوں کے ذریعے ہوتے ہیں اور یہ سربراہ بھی غیر منتخب یا تاحیات منتخب ہوتے ہیں۔
اس ملک میں سیاسی جماعتوں سے لے کر اداروں تک کا سارا نظام ہی بگڑا ہوا ہے ، ہر دور اقتدار میں اصلاحات کی باتیں بہت کی جاتی ہیں ، مگر عملی طور پر کوئی کچھ بھی نہیں کر رہا ہے، ہر کوئی خود کو مضبوط اور اداروں کو کمزور کر نے میں ہی لگا ہوا ہے، دنیا کے بیشتر ممالک کے عوام کو جانتے ہی نہیں ہیں کہ ان کے ملک کی فوج کا سربراہ کون ہے یا بڑی عدالت کا چیف جسٹس کون ہے ؟ جبکہ ہماری فوج کے سربراہ کو دنیا کی سو طاقتور شخصیات میں شامل کیا جاتا ہے اور دنیا کے جتنے بھی سربراہ یا وزرا خارجہ پاکستان آتے ہیں، وہ ہماری فوج کے سربراہ سے ملاقات کیے بغیر نہیں جاتے ہیں اور بڑے فیصلے آرمی چیف کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہوتے ہیں، اس طرح ہی عدالتوں میں بیٹھے منصف بھی اخبارات کی شہ سرخیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں، اس وقت حالات یہاں تک آ گئے ہیں کہ سیاستدانوں کی لڑائی میں ادارے بھی آمنے سامنے آ گئے ہیں، ہر کوئی اختیار لیکر بے اختیار عوام پر ہی اپنی دھونس جمانا چاہتا ہے اور عوام کا کام ان بڑوں کی لڑائی میں ایندھن بننا اور اپنی جانیں قربان کرنا ہی رہ گیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ وہی کھیل ہے، جو کہ ماضی میں بھی کھیلا جاتا رہا ہے اور آج بھی کھیلا جارہا ہے، اس پر آج جو خوشیاں منا رہے ہیں، کل وہی ماتم کرتے نظر آئیں گے ، یہ فیصلہ اب قوم نے کر نا ہے کہ خاموش تماشائی بننا ہے کہ متحد ہو کر کچھ کر گزرنا ہے، یہ وقت ہر فتنے کے خلاف کھڑے ہو نے کا ہے، اگر اس بار بھی مل کر بروقت سخت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران نہ صرف خیبر پختونخوا، بلوچستان ، بلکہ پورے ملک کو ہی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، کیا ہم اپنی آنکھیں بند رکھیں گے، یا جرأت، حکمت اور استقامت کے ساتھ مل کر در پیش بحرانوں کے بھنور سے نکلنے کی کوئی راہ تلاش کریں گے؟