Column

راولپنڈی نے کہا دنیا نے سنا

تحریر : سیدہ عنبرین

دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف موثر کارروائی کرنے کیلئے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس ملک بھر میں ہر شخص کا مرکز نگاہ تھا، جس میں سیاسی راہنمائوں، صوبائی وزرائے اعلیٰ ، اہم وفاقی وزرائ، انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ جس شخصیت نے مشاعرہ لوٹ لیا وہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ہیں، آب زر سے لکھے جانے کے قابل ان کے کلام کے دو فقرے اہم ترین ہیں۔ انہوں نے کہا ملکی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، ہم گورنس کے خلاء کو کب تک فوج اور شہداء کے خون سے بھرتے رہیں گے۔ آرمی چیف نے حقیقت حال کی بہترین تشریح کی، انہوں نے کوزے میں دریا بند کر دیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں لفظوں کا مطلب سمجھنے والے اور ان کا وزن کرنے والے کہیں موجود ہوں تو ان پر واضع ہو جانا چاہئے کہ جو کچھ کہا گیا وہ شائستہ لفظوں میں چارج شیٹ ہے اور سادہ لفظوں میں سرکار کا کچا چٹھہ ہے، پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، سب اندھیرے میں ٹامک ٹویاں مارتے رہے۔ وطن کی حفاظت کیلئے اٹھائے گئے حلف کی پاسداری میں پاکستان کی مسلح افواج کے افسر و جوان جان جوکھوں میں ڈال دیتے ہیں، اپنی خواہش قربان کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ وقت آنے پر اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے، وہ اس کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں، ملک کو مزید کیا دے سکتے ہیں۔
زندگی کے کسی شعبے میں گورنس نام کی کوئی چیز نہیں، آئے روز اربوں روپے کے مالیاتی سکینڈل، بے قاعدگیوں کی داستانیں اور اختیارات سے تجاوز کرنے کی کہانیاں اخبارات میں اہم جگہ پاتی ہیں، ہر واقعے کے بعد گھسے پٹے جملوں سے آراستہ بیان جاری ہوتے ہیں، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ مشاہدے میں آیا ہے جب کسی کے بارے میں کہا جائے اسے کیفر کردار تک پہنچائیں گے تو یقین کر لیجئے اس شخص کو کوئی بڑا منصب ملنے والا ہے، مرکز سے لے کر صوبوں تک ہر شخص کے چہرے کو بغور دیکھیں واضع ہو جائے گا ان میں درجنوں ایسے ہیں جو ’’ کیفر کردار‘‘ تک پہنچ چکے ہیں اور اب قوم کو کسی اندھے کنوئیں میں دھکیلنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔
قومی سلامتی کے مسلسل 7گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کے خاتمے پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، کسی کو نہیں چھوڑیں گے، کسی سے رعایت نہیں ہو گی، کریک ڈائون کریں گے، تخریب کاروں کی لاجسٹک سپورٹ ختم کرنے کا فیصلہ، کوئی کمزوری نہ دکھائے، یہ آگ ہمسایوں تک پہنچے گی، دہشت گردی ناسور ہے، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، یہ سب کچھ قوم گزشتہ 25برس سے سنتی آ رہی ہے، اب اس میں صرف ایک تبدیلی نظر آئی، وہ یہ کہ پاکستان میں ہر قسم کی دہشت گردی میں اہم کردار ادا کرنے والے ملک بھارت کا نام واضع لفظوں میں نہیں لیا جاتا، بلکہ اس وقت ہی لیا جاتا ہے جب عوام، دانشوروں اور میڈیا کا پریشر بڑھ جائے، ہم بھاگ بھاگ کر امریکہ میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے ان کے حوالے کرنے کو بڑی کامیابی سمجھتے ہیں، جس میں تمام تر اطلاعات ہمیں امریکہ ہی بہم پہنچاتا ہے، اب تو امریکہ کو بھی تازہ ترین گرفتار کئے گئے شخص کے حوالے سے امریکی عدالتوں میں ہزیمت کا سامنا ہے۔ اگر شریف اللہ کسی بڑی دہشت گرد کارروائی کا ذمہ دار ثابت نہ ہوا تو پھر کون کون منہ چھپاتا پھرے گا؟ ٹرمپ اور اس کے تمام چیلے یقیناً۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس میں بعض اہم شخصیات کی غیر حاضری حیران کن ہے، ملک آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے، اسے محفوظ کرنے کے حوالے سے وزارت داخلہ کا کردار اہم ہے، مگر اس کے سربراہ وفاقی وزیر داخلہ اس اجلاس میں موجود نہ تھے، شاید وہ کسی ’’ ارجنٹ پیس آف ورک‘‘ کی وجہ سے تشریف نہیں لا سکی، لیکن ایسا بھی کیا ارجنٹ تھا جو ملک اور قوم کی سلامتی سے زیادہ ارجنٹ تھا، انہیں سب کچھ چھوڑ کر اس اجلاس میں شرکت کرنا چاہیے تھی، وہ ملک سے باہر تھے یا اسلام آباد سے باہر تھے، خصوصی جہاز کی خصوصی پرواز سے واپس آ سکتے تھے، اسلام آباد میں درجن بھر سے زیادہ جہاز کھڑے تھے جو ایسے ہی اہم کاموں کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں، ہیلی کاپٹر بھی موجود ہوتے ہیں۔ ماضی میں عام آدمی کی خون پسینے کی کمائی سے چلنے والے یہ جہاز اور ہیلی کاپٹر، من پسند کھانوں کی
دیگیں ڈھوتے دیکھے گئے۔ ایک اور اہم شخصیت جو خیر سے ممبر قومی اسمبلی ہیں، تین مرتبہ کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ( ن) کے تاحیات قائد ہیں، انہیں بھی اس اجلاس میں بلانا چاہئے تھا، وہ اپنے وسیع علم اور وسیع تجربے کی روشنی میں دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے کوئی تیر ہدف نسخہ پیش کر سکتے تھے، ان کی صلاحیتوں، علم اور ویژن سے فائدہ اٹھانے کا ایک اہم موقع ضائع کر دیا گیا ہے۔ 25کروڑ پاکستانیوں میں 15کروڑ کے قریب پنجاب میں بستے ہیں، انہیں مسلم لیگ ( ن) کے ویژن کے مطابق ’’ نیو مادر ملت‘‘ مل چکی ہیں۔ سی ایم پنجاب نے بذات خود اس ٹائٹل کو اپنے لئے بہت پسند کیا ہے، اس اعتبار سے جناب نواز شریف اب اہل پنجاب کیلئے ’’ نانا ابو‘‘ کا مقام رکھتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں نہایت قابل احترام درجہ ہیں، پس جنہوں نے ’’ نانا ابو‘‘ کو قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں نہیں بلایا انہوں نے قوم کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ان جیسے وسیع تجربے کی حامل شخصیات اب خال خال ہی ہیں، زیادہ تر تو اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں، جس وقت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا جناب نواز شریف لاہور میں موجود تھے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے دھواں دھار اجلاس میں ایک سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ 1948ء میں جب قیام پاکستان کے فوراً بعد بھارت نے کشمیر پر حملہ کیا، 1962ء میں ایک مرتبہ پھر جب یلغار کرتے ہوئے رن آف کچھ میں بھارت نے شرانگیزی کی۔ 1965ء میں جب بھارت نے کئی اطراف سے پاکستان پر حملہ کیا۔ سیاچین، کارگل اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیاں کیں، کلبھوشن اور ایسے کئی نیٹ ورک پکڑے گئے تو ممبران پارلیمنٹ کو طلب کر کے ان سے دشمن پر ضرب لگانے کی اجازت نہیں طلب کی گئی۔ یقیناً نہیں جب دشمن حملہ آور ہو اس کی نشاندہی ہو چکی ہو، واضع ثبوت ہاتھ آ چکے ہوں تو پھر نمائشی کارروائی نہیں ہوتی، دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے دنیا کو دکھانے کیلئے یہ کارروائی کی گئی کہ جیسے تیسے انتخابات ہوئے، اب ایک سول حکومت قائم ہے، جو بہت طاقتور ہے، راولپنڈی اس کا تابعدار ہے، جب بلائو دوڑا چلا آتا ہے، راولپنڈی نے جو کہنا تھا کہہ دیا، وہ پورے پاکستان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، راولپنڈی نے کہا دنیا نے سنا۔

جواب دیں

Back to top button