انڈے اور کوا

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
حب الوطنی کا تقاضہ ہے کہ حالات حاضرہ پر بلا کم و کاست جو محسوس کرتا ہوں سپرد قلم کروں تو دوسری طرف محفل میں دستور زباں بندی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ سخت ترین ردعمل کا خدشہ بھی ہے۔ کئی ایک صحافی دوست، جو سچ کو بلا کم و کاست ضبط تحریر میں لاتے ہیں یا ان کا اظہار کرتے ہیں، دیار غیر ہجرت کر چکے ہیں کہ وطن عزیز میں ارباب اختیار، کیا فارم 47کے عوامی نمائندے یا ان کو مسند اقتدار پر بٹھانے والے پس پردہ حکومت بنانے اور چلانے والے، سچ سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے ۔ان کی خواہش ہے کہ سچ وہی لکھا اور بولا جائے، جو جبین ناز پر قوس و قزح کے رنگ تو بکھیرے مگر اس پر شکنوں کے جال نہ بنے، ایسی خواہشوں کے سامنے سپردگی کا اظہار کرنے سے قاصر شہریوں کے لئے صرف عقوبت خانے بچتے ہیں یا ہجرت۔ بہرکیف گزشتہ چند دنوں میں ملک کے طول و عرض میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص آتش و بارود کی جو بو فضا میں بکھر رہی ہے، وہ کسی دوسرے فرض کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہی ہے، جس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں خواہ اس کے لئے کوئی بھی قربانی دینا پڑے کہ پہلے ہی ہجرت کی قربانی دئیے بیٹھے ہیں، پھر بھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوتا۔ پاکستانی ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت کی ایک دنیا معترف ہے اور ان صلاحیتیوں کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتی دکھائی دیتی ہے، یہ عزت پاکستانی ایجنسیوں اور افواج پاکستان نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کمائی ہے۔ قربانیاں پیش کی ہیں، ایک معیار کو قائم رکھتے ہوئے، نظم وضبط کی پیروی کرتے ہوئے، سخت ترین تربیت کے طفیل، اقوام عالم میں منعقد مختلف مقابلوں میں بہترین اعزاز اپنے نام کئے ہیں، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کے ناسور کو نکیل ڈالنے میں تاحال ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کا یہ ناسور ایک دن میں نہیں بنا بلکہ ہزاروں برس کرتا ہے پرورش زمانہ۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا کے مصداق، ہم نے بھی ان سانحات کی برسوں پرورش کی ہے، جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں دہشت گردی میں واضح کمی دیکھنے کو ملی تھی، پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہو چکی تھی لیکن پھر سابق چیف آف آرمی کی خواہش کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرکے، انہیں واپس پاکستان میں بسایا جائے تا کہ انہیں بھی پرامن زندگی جینے کا حق ملے اور وہ معاشرے کے پر امن شہری بن کر زندگی گزاریں۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں اس کا خاکہ تیار ہوتا رہا مگر باضابطہ طور پر ٹی ٹی پی کے کارکنان کو پاکستان میں سکونت کی اجازت نہ ملی تاہم آج حکومت حقائق کو مسخ کرتے ہوئے، حالیہ دہشت گرد واقعات کو براہ راست ’’ طالبان خان‘‘ سے منسلک کرنی پر مضر ہے ۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ دہشت گرد کارروائیوں کے پیچھے عمران خان حکومت کی نااہلی ہے، جس کے باعث آج پاکستانی معاشرے میں دہشت گردی کے واقعات دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں اور ہدف پر نظر ڈالیں تو صرف عام شہری نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بالخصوص ان کے نشانے پر ہیں۔ بلوچستان کے حالات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ہاتھ سے نکلتے دکھائی دیتے ہیں گو کہ بارہا یہ مناظر دیکھنے کو ملے ہیں لیکن ہر مرتبہ کسی نہ کسی طرح سیاسی کھلاڑیوں کی مشاورت اور معاملہ فہمی سے معاملات سلجھا لئے گئے مگر ہر مرتبہ یہ صورتحال عارضی ثابت ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیشہ قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے یہی کہا گیا کہ اس میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے، جس سے انکار بھی ممکن نہیں کہ جب پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت دشمنی پر مبنی ہو گی، تو وہ ہمیشہ عدم استحکام کے لئے بروئے کار آئیں گے، سوال یہ ہے کہ ہم نے حفاظتی اقدامات کیا کئے ہیں؟بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے، سیاسی زعماء نے کیا کوششیں کی ہیں؟ وفاق سے فنڈز کا حصول ہمیشہ ممکن رہا ہے لیکن اس فنڈ کا مصرف کیا رہا ہے؟ کیا کوئی بھی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ بلوچ سیاسی رہنماؤں کا شاہانہ طرز زندگی رہا ہے اور قومی وسائل ان کے ذاتی تصرف میں ہی رہے ہیں؟ کراچی ہو یا اسلام آباد یا بلوچستان میں ان کی رہائشیں یا ذاتی طرز زندگی، ہمیشہ قابل رشک رہا ہے لیکن عوامی حالت کو بہتر بنانے کے لئے ان کا کردار کیا رہا ہے؟۔ ماسوائے اس حقیقت کہ قبائلی رسم و رواج میں رہتے ہوئے، بطور قبائلی سردار ان سیاسی رہنمائوں کا اثرورسوخ عوام پر اس قدر ہے کہ ان کے جذبات کو جیسے اور جہاں چاہیں موڑ دینے کی طاقت رکھتے ہیں،جو بیانیہ ان کو رٹا دیں،عوام اس پر آنکھیں بند کرکے یقین بھی کرتی ہے اور اس پر پہرہ بھی دیتی ہے۔ جب یہ سیاسی زعماء اس قدر اثرورسوخ و طاقت و قدرت رکھتے ہیں تو کیونکر عوام میں وفاق مخالف جذبات پنپتے ہیں؟کیا یہ اس حقیقت کو آشکار نہیں کرتی کہ ان سیاسی رہنمائوں کے ذاتی مفادات اور انا قومی مفاد سے کہیں بڑے اور ترجیح رکھتے ہیں؟کالعدم تنظیموں کو جس طرح ماضی میں قائل کیا گیا یا انہیں نکیل ڈالی گئی،جو بھی کہیں،اس نے حالات کو قدرے پرسکون کر دیا تھا لیکن اب پھر یہ خانہ جنگی کی سی صورت کیسے اور کیونکر بپا ہوئی؟کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ اس دوران ہماری خفیہ ایجنسیوں کی ترجیحات بھی بدل گئی تھی اور حکومتی رٹ تسلیم نہ کرنے والوں کی نقل و حرکت سے نظریںہٹ گئی تھی یا ہٹا کر کسی او رعمل پر مرکوز ہو چکی تھی؟جس کانتیجہ یہ نکلا کہ یہ فورس دوبارہ منظم ہو گئی اور پھر سے بلوچستان میں خون کی ہ ولی کھیلنے پر تلی نظر آتی ہے؟یقینی طور پر جب آپ کی ترجیحات بدلیں گی تو اس کا نتیجہ بھی کچھ ایسا ہی برآمد ہو گاکہ دشمن کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ آپ استحکام کی شاہراہ پر سکون کے ساتھ گامزن ہو اور اندرونی طور پر ایسی کسی بھی پالیسی کو بروئے کار نہیں آنے دے گا ،جس سے معاملات بہتری کی طرف جائیں،وہ خواہ سیاسی ہوں یا معاشی یا عسکری۔ سیاسی لحاظ سے جو ابتری ملک میں موجود ہے،اس میں بیرونی عنصر کی بجائے اندرونی اختلافات و انا و ضد جیسے معاملات زیادہ دکھائی دیتے ہیں لہذا بیرونی ہاتھ کو اس میں ملوث ہونے کی ضرورت نہیں البتہ اگر یہ ابتری سلجھنے کی طرف جاتی ہے تب یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ بیرونی ہاتھ اس میں ملوث ہو کر اس کو دوبارہ عدم استحکام سے دوچار کردے۔ جبکہ دوسری طرف ایسے دوست ممالک بھی ہیں کہ جو واقعتا یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے اندرونی سیاسی معاملات کو جلد از جلد درست راستے پر لائے تا کہ یہاں معاشی سرگرمیوں کو فروغ مل سکے،جس کے آثار تاحال دکھائی نہیں دے رہے گو کہ چین جیسامتبادل راستے ڈھونڈ رہا ہے لیکن جو منصوبہ براستہ پاکستان ہے،وہ بالکل چھوڑا بھی نہیں جا سکتا ۔البتہ اس سیاسی صورتحال میں امریکہ و دیگر ممالک ایسے بھی ہیں کہ جن کے لئے یہ کسی نعمت غیر متبرکہ سے ہرگز کم نہیں کہ ان حالات میں پاکستان کے معاشی حالات ان کے رحم و کرم پر ہیں اور پاکستان کسی بھی صورت امریکی سرپرستی سے باہر نہیں نکل سکتا۔عسکری حوالے سے معاملات پر گفتگو ہمیشہ ہی ایک مشکل ترین مرحلہ رہا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ اس وقت ہر جگہ یہ بات ہو رہی ہے اور ماضی میں پاکستان کے کردار کو مد نظر رکھا جائے تو اس سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ستر کی دہائی سے پاکستان کی معاشی صورتحال براہ راست ایک فرنٹ سٹیٹ کی حیثیت سے امریکہ کے زیر دست رہی ہے جبکہ آج حالات ایسے ہیں کہ امریکہ ایک طرف چین و روس کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے تو دوسری طرف یمن کے ساتھ سینگ بھی پھنسا رہا ہے،اس صورت میں پاکستان کے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟ پاکستان نے روسی جارحیت سے ہی افغانستان میں ایک کردار نبھایا ہے گو کہ اس کردار کی پاکستان کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے لیکن بہرطور افغان سرزمین پر پاکستان نے روس و امریکہ دونوں کو شکست دی ہے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟روس و امریکہ افغانستان سے نکل گئے لیکن افغانوں کی مہمان نوازی کے باوجود،ان کی سرزمین کی جنگ لڑنے کے باوجود،افغان عوام اور آج طالبان کی حکومت تک،پاکستان کے خلاف بروئے کار آ رہی ہے اور ہمارے وزراء یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ افغانوں کی جنگ تو پاکستان لڑے، قربانیاں پاکستان دے لیکن ثمرات اٹھانے کے لئے بھارت سب سے آگے دکھائی دے؟۔ کیا یہ فاختہ کے انڈوں کی منظر کشی نہیں ہے کہ انڈے دیں بی فاختہ اور لے اڑیں کوے؟۔ اس وقت پاکستان کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے اور اس کا علاج اندرونی معاملات کو ٹھیک کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔