CM RizwanColumn

جاوید لطیف کی جرات اظہار، حالات حاضرہ

تحریر : سی ایم رضوان
شیخوپورہ شہر سے ن لیگ کے ٹکٹ پر متعدد بار ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہونے والے میاں جاوید لطیف نے راقم الحروف کو ایک تازہ ملاقات میں اصولی طور پر بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کا سیاست کے نام پر ملک میں غیر سیاسی اور ملک دشمن تماشا آج بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ سابقہ نواز شریف دور کے اواخر میں سول نافرمانی جیسے وطن دشمن تماشے سے لے کر آج سانحہ جعفر ایکسپریس کے بعد بلائی جانے والی انتہائی قومی نوعیت کی حساس آل پارٹیز کانفرنس میں بھی پی ٹی آئی کی پہلے مشروط اور بعد ازاں منقسم شرکت تک ہر موڑ پر پی ٹی آئی کی میں نہ مانوں کی پالیسی نے ملک کا بیحد نقصان کیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جبکہ پی ٹی آئی نے اے پی سی میں شرکت کو بانی پی ٹی آئی کی شمولیت سے مشروط کر دیا تھا تو ن لیگ کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی پی ٹی آئی کی یہ شرط مسترد کر دی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اے پی سی میں شرکت کے لئے بانی پی ٹی آئی کی پیرول پر رہائی نا قابل قبول ہے۔ پی ٹی آئی اس اہم قومی مسئلے پر بھی بلیک میلنگ کر رہی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ تحریک انصاف اے پی سی میں غیر مشروط شرکت کرے، اے پی سی میں تمام جماعتیں غیر مشروط ساتھ دیں، دہشتگردی کے تانے بانے بھارت اور افغانستان سے ملتے ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل پر اب بھی قبائلی سرداروں کا قبضہ ہے، بلوچ نوجوانوں کے استحصال کا ازالہ اے پی سی کا بنیادی ایجنڈا ہے، افغانستان کو بار بار کہا بی ایل اے اور کالعدم ٹی ٹی پی کو باندھ کر رکھو مگر افغانستان ہمسائے والا کردار ادا نہیں کر رہا۔ بہرحال منگل کے روز خود پی ٹی آئی کے اندر بیانیے کی تقسیم کے ساتھ، انتہائی سرپھٹول کے بعد اور اپنے ہی سوشل میڈیا ٹرولز کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود پی ٹی آئی کے ایک گروپ نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا۔ اس حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی کو شرکت کرنے والے اپنے ارکان کی فہرست بھجوا دی تھی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کے لئے وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا بند کمرے کا اجلاس گزشتہ روز ( منگل) کو طلب کیا تھا، اس سے قبل قومی اسمبلی اجلاس میں پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی تحریک منظور کر لی گئی تھی۔ اجلاس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی، اجلاس میں کابینہ اراکین کے علاوہ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنما اور ان کے نامزد نمائندگان نے شرکت کی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان، زرتاج گل، اسد قیصر، علی محمد خان سینیٹ میں
قائد حزب اختلاف شبلی فراز، سینیٹر ہمایوں مہمند اور سینیٹر علی ظفر کے علاوہ حامد رضا، عون عباس، زبیرخان، ثنااللہ مستی خیل، بشیر خان اور عامر ڈوگر کے نام فہرست میں شامل تھے۔میاں جاوید لطیف کا تمام سیاسی کیرئیر گواہ ہے کہ ایک طرف تو انہوں نے اپنی سیاسی کمٹمنٹ اور سوچ کا اظہار ہمیشہ دبنگ طریقہ سے کیا اور دوسری طرف جو بھی کہنا چاہا ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔ ملکی سیاست میں جرات اظہار کی ایسی نایاب مثالیں قائم کرنے کی پاداش میں انہیں متعدد بار گرفتاریوں اور ناکردہ گناہوں کی سزاں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال آٹھ فروری کے قومی انتخابات میں انہیں ایک غیر متوقع اور واضح طور ہر دلائی گئی شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ ان کے حلقہ کے اکثریتی عوام تسلیم کرتے ہیں کہ ایم این اے شپ کے اپنے دور میں انہوں نے حلقہ کی تاریخ میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے اور حلقہ کے عوام کا معیار زندگی بلند کیا۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جرات اظہار میں ملکی سیاست میں نمایاں مقام رکھنے والے جاوید لطیف نے جب اپنی اس نادیدہ چہروں کی جانب سے دلوائی گئی شکست پر اپنے بلند آہنگ لہجے میں احتجاج کیا تو خود ان کی پارٹی کے رانا ثناء اللہ ان کی مخالفت میں بول پڑے۔ شاید یہ بھی رانا ثناء اللہ کی اپنی سیاسی ضرورت ہو گی مگر جاوید لطیف نے اپنی آواز اور اظہار کو کبھی بھی مقید نہیں کیا۔ جو بھی اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے مطابق سچ دیکھا یا سمجھا اس کا اظہار کیا۔ ایک وقت میں یہ بھی کہہ دیا کہ شہباز شریف اپنے پارٹی قائد میاں نواز شریف کے احکام کے پابند ہیں اور وہ انہیں سمجھا نہیں سکتے۔
جرات اظہار میں قابل ذکر سیاستدان جاوید لطیف نے ایک دور میں تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہمیں گھیرگھار کر عدم اعتماد لائی گئی، اس کے پیچھے کافی چیزیں کار فرما ہیں، یہ سہولت کاری تھی جو بغاوت کی صورت میں سامنے آئی تو ادارے کو پتہ چلا، خود احتسابی کا عمل بھی ادارے میں ہوتا ہے۔ جاوید لطیف کے اس بیان پر بھی ملک بھر کی سیاست و صحافت میں بڑی لے دے ہوئی مگر جاوید لطیف اپنے کہے پر ڈٹے رہے۔ ان کی اس پالیسی اور جرات پر بعض اوقات ن لیگی قیادت کی جانب سے بھی انہیں مخالفت اور سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے سچ کے مصداق ہمیشہ اپنی بات اور سوچ پر ڈٹے رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جاوید لطیف کا بیانیہ ن لیگ کی حکومتی قیادت یہاں تک شہباز شریف سے بھی مختلف ہوتا ہے مگر ان کا بیانیہ نواز شریف سے ملتا ہے۔ مثال کے طور پر چند ہفتے قبل جب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا مرحلہ آیا تو اس پر جاوید لطیف نے اپنے ردعمل میں یہ کہہ دیا کہ عمران خان اسرائیل کو منظور کرنے کی سازش کر رہے تھے، بانی کی رہائی کا مطالبہ کرنے والوں کا نیو کلیئر پروگرام تک رسائی اور سی پیک مکمل نہ کرنے کا بھی مطالبہ ہے، واضح رہے کہ اس ضمن میں نواز شریف نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ عمران خان اسرائیل کو منظور کرنے کی سازش کر رہے تھے تو اداروں میں بیٹھے کچھ لوگ بھی ملوث تھے۔ جاوید لطیف نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی پہلے بانی پی ٹی آئی نے تشکیل دی، اس کے جواب میں حکومتی کمیٹی بنائی گئی، دونوں سائیڈ سے اصولی موقف نہیں ہے، دونوں سائیڈ سے خوش دلی سے کمیٹیاں نہیں بنائی گئیں، ایسی کمیٹیاں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں۔ اس شخص کے لئے جو دبا ہے وہ بتایا جائے، حکومت اور ادارے دیانتداری سے بتائیں، اپنے بیانیہ کو تسلسل دیتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ سول نافرمانی کی بار بار دھمکیاں دی جاتی ہیں، کیا سول نافرمانی 9مئی سے بڑا جرم نہیں ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ سول نافرمانی ریاست دشمنی ہوتی ہے، بانی کی امریکا میں لابنگ فرم ہائر کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پریشان نہیں ہے، بانی پریشان ہیں جو پہلے کہتے تھے کہ ہم کوئی غلام ہیں اور اب منت سماجت ہو رہی ہے، جنہوں نے بانی کو آفر کی انہیں بے نقاب ہونا چاہئے، جو آفر کیا جا رہا ہے اسے بھی پبلک ہونا چاہئے، ریاست کو اپاہج کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ جاوید لطیف نے مزید کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی مذاکرات سے پہلے اپنی غلطیوں کی معافی مانگے، یاد رہے کہ ان دنوں بھی بانی پی ٹی آئی سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی دھمکیاں دے رہے تھے جس پر جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ اگر سول نافرمانی تحریک کامیاب ہو گئی تو ریاست کیسے چلے گی۔ ایک بار سول نافرمانی چل پڑی تو ریاست کو بچانے والا کون ہوگا۔ جاوید لطیف تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ جب سیاسی جماعتیں سکیورٹی رسک بن جائیں تو پھر ملک کا اللّٰہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ ان کی جانب تو یہ مطالبہ بھی سامنے آتا رہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا دی جائے مگر ان کی باتوں پر اس طرح سے غور اور عمل نہیں ہوتا جس طرح کہ ہونا چاہیے۔ ان حالات میں اور خاص طور پر موجودہ حالات میں یہ کہنا بجا ہے کہ جاوید لطیف جیسے محب وطن اور اصول پرست سیاست دانوں کی ملکی مفاد میں باتوں کو نظر انداز کرنے سے ہی آج ملک متعدد سیاسی و انتظامی چیلنجز سے دوچار ہے۔

جواب دیں

Back to top button