Column

حکمت

تحریر : علیشبا بگٹی
ارسطو کا قول ہے کہ ’’ خود کو جاننا تمام حکمت کا آغاز ہے‘‘۔ اس قول کا کیا مطلب ہے ؟ ارسطو، جو کہ قدیم یونان کے ایک عظیم فلسفی تھے، نے یہ بات کہی کہ خود کو جاننا، یعنی اپنے اندرونی جذبات، خیالات اور عملوں کو سمجھنا، ہر قسم کی حکمت اور دانش کا بنیادی قدم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی دریافت یعنی انسان کو اپنی ذات، اپنی صلاحیتوں اور کمزوریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ خود شناسی ہی اسے اپنی زندگی کا مقصد اور راستہ تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو سمجھ لیتا ہے تو وہ دوسرے لوگوں، سماج اور دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ اس کے لیے علم کے دروازے کھول دیتا ہے۔ خود شناسی کے بغیر انسان کسی بھی موضوع پر گہری بصیرت حاصل نہیں کر سکتا۔۔ یہی وجہ ہے کہ ارسطو نے کہا کہ خود کو جاننا تمام حکمت کا آغاز ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں تو ہم اپنی پریشانیوں اور خوفوں سے نمٹنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ خود شناسی ہمیں زندگی کے اہم فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔۔ ارسطو کا یہ قول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی ذات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خود شناسی ہمیں ایک بہتر انسان بننے میں مدد دیتی ہے اور ہمیں زندگی کے مختلف پہلوں میں کامیاب بناتی ہے۔ یہ قول انسانی خود شناسی اور خود آگاہی کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ ارسطو کے فلسفے میں، علم اور حکمت کی بنیاد یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنی ذات کو پہچانے اور اپنے اندرونی وجود کو سمجھے۔ یہ سوچ قدیم فلسفے کا ایک مرکزی پہلو ہے، جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ خود کو جاننے کے بعد ہی انسان صحیح معنوں میں علم اور حکمت حاصل کر سکتا ہے۔ باعزت و باوقار، پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے حکمت کا ہونا ضروری ہے اور حکمت کے بغیر زندگی بہت کٹھن اور دشوار اور الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہوتی ہے، بے مزہ اور بے مقصد ہوتی ہے، نہ فرائض کی پرواہ، نہ حقوق کی فکر، نہ انجام کا غم، بس جو جی میں آئے کر گزرنے کی لگن ہوتی ہے، چھینا جھپٹی، لوٹ مار اور دھوکہ دہی طرز معیشت ہوتا ہے، دھینگا مشتی، لڑائی جھگڑا اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا معیار طرز معاشرت ہوتا ہے، نہ ہمدردی، نہ خیر خواہی، نہ شفقت و رحمت، بس لابی و خود غرضی ایسے آدمی کا وتیرہ ہوتا ہے۔ حکمت کی ضرورت و اہمیت سمجھ آجانے کے بعد انسان کو اُس کی محرومی پر فکر مند ہونا چاہیے اور اُس کے حصول کی سعی و جد و جہد کرنی چاہیے۔۔ تاہم جب تک ہمیں حکمت حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ اگر حاصل ہو بھی جائے تو بھی ہمیں صالحین کے حکمت، اقوال وافعال اور واقعات سے مستفید ہو کر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید کے سورۃ لقمان کی آیت نمبر 12میں حضرت لقمان حکیم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’ ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللّٰہ تعالی کے شکر گزار بنو‘‘۔۔۔ حکمت، دور اندیشی اور بصیرت کسی جلد باز، جذباتی اور جنونی کو حاصل نہیں ہوتی۔۔ حکمت ایک بہت بڑی حقیقت ہے، اس کا حصول انسان کی اشد ضرورت ہے اور اس کا فقدان انسان کا بہت بڑا مسئلہ ہے مگر افسوس کہ اس دور میں حکمت کے فقدان کو سرے سے کوئی مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا حالانکہ حکمت کے بغیر انسان کے مسائل سلجھنے میں نہیں آتے بلکہ الجھتے ہی چلے جاتے ہیں، ترجیحات بدلتی چلی جاتی ہیں، معیارات خلط ملط ہوتے چلے جاتے ہیں، صحیح اور غلط کے، اچھے اور برے کے خود ساختہ معیار جنم لینے لگتے ہیں، اپنے مفادات کے لیے پھر حکمت سے خالی انسان عقل سے اندھا ہو جاتا ہے۔ دنیا فریب ِ نظر اور زندگی مداری کا تماشا ہے۔ اس ظاہر کے جادو سے نکلنے کے لئے نگاہوں سے فریب کا پردہ ہٹانا ضروری ہے مگر فریب کا پردہ تیقن یعنی اللہ پاک پر گہرے یقین اور منتظر رہتے ہیں۔۔ اس حکمت کی تلاش سے بصیرت حاصل ہوتی ہے۔
اللّٰہ پاک نے قرآن پاک کی سورۃ البقرۃ آیت نمبر 269میں فرمایا ہے ’’ کہ وہ جسے چاہتا ہے حکمت عنایت کرتا ہے، اور جسے حکمت مل جائے یقینا اسے بہت سی بھلائی عطا کردی گئی‘‘۔۔۔ ’’ حکمت‘‘ علم نافع، فہمِ دین، صوابدید، درست ذہنی سمت کا نام ہے، ’’ حکمت ‘‘ اچھی سوچ، عمدہ رائے، ذہنِ ثاقب، اور بار آور فیصلے کو ہی کہتے ہیں۔ ’’ حکمت ‘‘ سے آراستہ ہوکر حکمت کے مفہوم کا مجسمہ بن کر پیش ہونا بہت بلند ہدف ہے جس کو پانے کا ہر دانشور خواب دیکھتا ہے، صاحبِ حکمت شخص تمام معاملات کو ان کا حقیقی مقام دیتا ہے، مثبت اقدام کی جگہ پر مثبت قدم اٹھاتا ہے، اور جہاں منفی پہلو ہو وہاں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، خرابی و خلل اور نتائج اپنی دور رس بصیرت کے باعث وقت سے پہلے ہی معلوم کر لیتا ہے۔ صاحبِ حکمت لوگوں کی علامات میں ، اعتدال پسند سوچ، روشن آگہی، محکم جذبات، متوازن جوش شامل ہیں، جو شخص اللہ کیلئے خالص ہوجائے حکمت اس کے اقوال و افعال سے چھلکنے لگتی ہے ۔ حکمت یہ بھی ہے کہ نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی کا استعمال کیا جائے حکمت کا تقاضا ہے کہ ترجیحات کو بھی ترتیب دی جائے، پہلے سب سے اہم پھر اسکے بعد اس سے کم کو ترجیح دی جائے۔ انسان حکمت کی پٹری سے اس وقت اتر جاتا ہے جب خواہشات اور جہالت چھانے لگے۔
اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ خواہشات کے پیچھے مت لگ جانا، کہیں تمہیں اللہ کے راستی سے بھٹکا نہ دیں‘‘۔ افضل اور بہترین چیز کو بہترین علم کے ذریعے جاننا حکمت کہلاتا ہے۔۔ ابن سینا کے نزدیک حکمت کا اطلاق تمام علوم اور اُن کی شاخوں پر ہوتا ہے۔ انسانوں کی سیرت اور شخصیت بنانے میں ان کی سوچ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ جب انسان حکمت کو پا لیتا ہے تو پھر اسکی سوچ اعلیٰ ہوجاتی ہے اور اگر سوچ اعلیٰ ہوجائے تو انسان اپنے عمل میں ارفع ہوجاتا ہے۔ سوچ کا بلند تر ہونا عمل کی عظمت کی شہادت دیتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button