ColumnImtiaz Aasi

رئیل اسٹیٹ، حوالہ ہنڈی اسکینڈل

امتیاز عاصی
پاکستان کی معیشت میں حوالہ ہندی کا عنصر اس حد تک سرایت کر چکاہے جسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ حوالہ ہنڈی ایک طرح سے منی لانڈرنگ کا دوسرا نام ہے۔ پاکستان جیسے کمزور معاشی ملک حوالہ ہنڈی جیسے کاروبار کو غیر قانونی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس دھندے میں ملوث لوگوں کو ایف آئی اے جیسے ادارے کے ملازمین کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مملکت میں کسی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنا بھی تو بدلتے حالات ختم ہو گیا یا پھر سیاست دانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد مروجہ قوانین میں ترامیم کرکے ختم کر ا لیا۔ گویا ہماری معاشی تباہی میں منی لانڈرنگ کے ذریعے سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے والوں کا اہم کردار ہے۔ ایک اردو معاصر نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کے نام شائع کئے ہیں جو اپنا سرمایہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے دبئی لے گئی ہیں جہاں وہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ حوالہ ہنڈی پر کنٹرول ناممکن ہے حکومت زیادہ سے زیادہ ایسے افراد جو بیرون ملک سرمایہ لے جاتے ہیں اس ملک سے ان کی جائیدادوں کا پتہ چلا سکتی ہے جہاں کسی نے سرمایہ کاری کی ہو۔ ملک میں ریونیو جمع کرنے والے سب سے بڑے ادارے ایف بی آر نے اتنا پتہ چلا لیا ہے جن لوگوں نے غیر قانونی ذرائع سے اپنا سرمایہ دبئی منتقل کیا ہے اور وہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اب حکومت پر منحصر ہے وہ ان کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لاتی ہے۔ منی ٹریل دینے کو کوئی تیار نہیں۔ عمران خان کے دور میں میاں نواز شریف کے ساتھ یہی مسئلہ بنا تھا حکومت لندن میں ان کی جائیدادوں پر اٹھنے والے اخراجات کی منی ٹریل مانگتی رہی نواز شریف کا موقف تھا انہوںنے جائیدادیں ذاتی سرمائے سے خریدی تھی۔ منی ٹریل دینے میں نواز شریف کیوں ناکام رہے اس کی وجہ وہ منی لانڈرنگ سے سرمایہ باہر منتقل کرنے کا بتاتے تو ان کے خلاف شہادت کی ضرورت نہیں رہتی۔ میاں نواز شریف نے محفوظ راستہ اختیار کیا اور معاملے کو طوالت دیتے رہے۔ عمران خان کی حکومت کی برطرفی کے بعد حالات نے پلٹا کھایا جس کے بعد ان کے اور ان کے بھائی وزیراعظم کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات خودبخود ختم ہو گئے۔ پاکستان اور یہاں کے عوام کا یہی المیہ ہے۔ طاقتور سزائوں سے بچ جاتے ہیں غریب لوگ قانون کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ بعض سیاست دان اس حد تک بااثر اور خاص طور پر شریف خاندان کے اثر و رسوخ سے نہ کوئی حکومت نہ عدالت ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اگرچہ ایف بی آر نے ان لوگوں کا سراغ لگا لیا ہے جنہوں نے حوالہ ہنڈی سے سرمایہ دوبئی منتقل کیا اب موجودہ حکومت کا امتحان ہے وہ غیر قانونی طریقہ سے سرمایہ باہر بھیجنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے ناجائز ذرائع سے دولت باہر بھیجنے والوں کے خلاف مقدمات تو دور کی بات ان کا کوئی بال بھیگا نہیں کر سکا ۔ اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے جہاں سرکاری ملازمین ٹیکس ادا کرتے ہیں بلکہ ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کر لی جاتی ہے۔ دنیا کے قریبا تمام ملکوں کی معیشت میں ٹیکسوں کی وصول کا بڑا رول ہے اس کے برعکس ہمارے ملک میں ٹیکس چوری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے گزشتہ کئی عشروں سے پاکستانی قوم دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے فروغ سے بیرونی سرمایہ کار مملکت میں آنے سے خائف ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں کئی منصوبوں پر کام کرنے والے غیر ملکی ماہرین مارے جا چکے ہیں۔ دہشت گردی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ افواج پاکستان کے بہادر جوان ہرروز ملک و قوم کی خاطر جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں ۔ ایک افغان مہاجرین ہماری معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ حکومت نے چلیں دیر سے سہی ان مہاجرین خواہ ان کے پاس اقوام متحدہ کے پی او آر کیوں نہ ہوں ان کی وطن واپس کا فیصلہ کر لیا ہے اس مقصد کے لئے اکتیس مارچ کی حتمی تاریخ دے دی گئی ہے۔ حکومت افغان پناہ گزینوں کی واپس میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے آنے والے دنوں میں پتہ چلا جائے گا۔ افغان مہاجرین نے مہمان نوازی کی بدلے میں دہشت گردی بطور انعام دی۔ طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد پناہ گزینوںکو رضاکارانہ طور پر واپس چلے جانا چاہیے تھا مگر وہ واپس کا نام لینے کو تیار نہیں۔ حکومت مہاجرین کی واپسی میں سنجیدہ ہے تو اس مقصد کے لئے عوام کی مدد لے سکتی ہے۔ قریہ قریہ افغان مہاجرین کی فہرستیں تیار ہونی چاہیں۔ بلدیات نظام ہوتا تو بلدیاتی نمائند وں کی مدد لی جا سکتی تھی۔ افغانوں کی بڑی تعداد کے پاس ہمارے جعلی شناختی کارڈ ہیں جن کے بل بوتے پر وہ کاروبار کر رہے ہیں۔ مملکت میں قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کے لوگ مخلص ہوتے تو افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کبھی یہاں نہیں رہ سکتی تھی۔ ایف آئی اے جیسا ادارہ حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔ ایف آئی اے کے ملازمین ایسے لوگوں بارے پوری معلومات ہیں روپے پیسے کے لالچ نے ان کی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یونان میں کشتی کا سانحہ پیش آیا تو انسانی سمگلنگ کرنے والوں پر ایف آئی اے نے ہاتھ ڈالنا شروع کیا۔ سوال ہے وہ حادثہ پیش آنے سے پہلے ایسے لوگوں کو قانون کی گرفت میں کیوں نہیں لاسکے؟ حکومت کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی کیلئے سخت ترین اقدامات کرنے ہوں گے جو ابھی تک نہیں کئے جا سکے ہیں۔ بڑے بڑے کاروبار کرنے والے افغان مہاجرین حوالہ ہنڈی کے غیرقانونی کاروبار میں ملوث ہیں۔ حکومت کو انہیں غیر پسندیدہ سفارت کاروں کی طرح وطن سے باہر نکالنا پڑے گا ورنہ افغان پناہ گزیں کبھی واپس نہیں جائیں گے۔ حوالہ ہنڈی اور افغان پناہ گزینوں کی واپس کے لئے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا۔ مملکت میں حوالہ ہنڈی کا کاروبار اسی صورت ختم ہو سکتا ہے جب اس کاروبار میں ملوث لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے ۔ اس کاروبار میں ملوث لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں دینے کے لئے قانون میں ترمیم لانی چاہیے۔ بدقسمتی سے سیاست دان اقتدار میں آکر ملکی مفادات کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ حوالہ ہنڈی کی حوصلہ شکنی اسی صورت ممکن ہے جب اس غیر قانونی دھندے میں لوگوں کو پکڑکر جیلوں میں بھیجا جائے اور بلا امتیاز سزائیں دی جائیں۔

جواب دیں

Back to top button