اعتکاف، قیام اللیل اور لیلتہ القدر کی فضیلت

میاں محمدتوقیر حفیظ
رمضان المبارک کا آخری عشرہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی عشرہ میں وہ رات آتی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ اس لئے اس میں زیا دہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہئے زیادہ سے زیادہ دعا کرنی چاہئے اور اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرتے ہوئے سچے دل سے گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہئے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا تو رسولؐ اللہ رات بھر جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور کمر بستہ ہوکر خوب عبادت کرتے ( البخاری 2024، مسلم 1174)۔ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عہنا بیان کرتی ہیں کہ ’’ رسولؐ اللہ عبادات میں جتنی محنت آخری عشرے میں کرتے تھے اتنی کبھی نہیں کرتے تھے‘‘۔ ( مسلم:1157)
لہذا ہمیں رسولؐ اللہ کے اسی طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اس عشرے میں کمر بستہ ہوکر خوب عبادت کرنی چاہئے اور اپنے رب سے رحمتیں، گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہئے کیونکہ کچھ علم نہیں شائد کہ اگلے سال رمضان کی بابرکت سعادتیں ہمیں حاصل ہوں کہ نہ ہوں اس لئے یہی موقع ہے رمضان المبارک کی بابر کتیں رحمتیں ہم سے ختم ہو رہی ہیں اگر ابھی بھی ہم اپنے اللہ کے سامنے گڑ گڑائے نہیں تو ہمیں اس کی بارگاہ میں آکر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ایک خصوصی عبادت آتی ہے جس کا نام ’ اعتکاف‘ ہے جس کی بڑی فضیلت ہے۔
اعتکاف:رمضان المبارک کا آخری عشرہ کثرت عبادت کی سب سے افضل شکل یہ ہے کہ یہ عشرہ اعتکاف میں گزارا جائے کیونکہ اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ انسان دنیاوی کاموں سے بالکل منقطع ہوکر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی اُسی کی عبادت میں اپنا وقت گزارے اُس کی رضا کو حاصل کرے اُس کا قرب حاصل کرے۔ رسولؐ اللہ بھی یہ عشرہ اعتکاف کرتے اور خوب اللہ سے توبہ استغفار کو طلب کرتے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’ رسولؐ اللہ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گزارتے، یہاں تلک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کر دیا، پھر بھی آپؐ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف بیٹھنے لگیں‘‘ ( بخاری: 2026، مسلم 1172)۔ اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ رسولؐ اللہ ہر رمضان میں اعتکاف بیٹھتے تھے پھر جب وہ سال بھی آیا جس میں آپؐ وفات پا گئے تو اس میں آپؐ بیس دن اعتکاف بیٹھے‘‘۔ ( بخاری: 2044)۔
لہذا رسولؐ اللہ کی اس سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے مسلمان رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھیں جس میں وہ دنیاوی کاموں سے بالکل بے نیاز ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ کچھ بد نصیب ایسے بھی ہیں جن کی زندگیوں میں رمضان تو آیا لیکن اُنہوں نے دنیاوی عیش و عشرت، دنیاوی سٹیٹس کو نہ چھوڑا اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کیا بلکہ دنیا کی رنگینیوں میں غرق رہے مال و دولت کو دیکھا اپنے سٹیٹس کو دیکھا ایسے بد نصیب لوگ چاہے رمضان کے روزے رکھیں نہ رکھیں اللہ تعالیٰ کو ایسے عمل قبول نہیں۔ تو ہمیں چاہئے کہ کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اُس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، اُس کے سامنے سجدہ ریزہوں، رو رو کر اُس کا قرب اُس کی رضا اُس کی جنت کو طلب کریں، کثرت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کریں نہ صرف قرآن کی تلاوت کریں بلکہ اس کو سمجھ کر غوروفکر کے ساتھ اس کی تلاوت کریں بار بار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے آنسوں کو بہائیں دنیا اور آخرت کی خیر و بھلائی طلب کریں۔ معتکف حضرات دوران اعتکاف مسجد سے باہر دنیاوی کاموں کے لئے تو کیا دینوی کاموں کیلئے بھی نہیں نکل سکتے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’ معتکف کیلئے سنت یہ ہے کہ وہ دوران اعتکاف مریض کی عیادت کیلئے نہ جائے جنازہ کیلئے نہ جائے بیوی کو مت چھوئے اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے اور کسی کام کیلئے مت نکلے سوائے اس کے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو‘‘ ( ابودائود: 2473وصححہ الالبانی)۔
معتکف کو چاہئے کہ وہ اپنے خیموں سے باہر نہ نکلیں صرف نماز یا طہارت کیلئے باہر نکل سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ وقت تسبیح قرآن کی تلاوت میں لگائیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ لغو، فضولیات، دنیاوی باتیں نہ کریں، مسجد کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے حرام امور مثلاً غیبت، چغلی وغیرہ سے بچے کسی قسم کی بد تہذیبی کا مظاہرہ نہ کرے پاکیزگی، طہارت ، لباس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔ دنیاوی مجالس میں بیٹھنے سے مکمل اجتناب کرے۔
اعتکاف کے دوران فرائض پر مداوت کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات بھی کثرت کے ساتھ کرنی چاہئیں اسی طرح وہ شخص جو اعتکاف نہ بیٹھے وہ بھی اسی عشرہ میں کثرت کے ساتھ نوافل کا اہتمام کرے تاہم اس سلسلے میں ایک بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ نوافل وہی پڑھے جائیں جو خود رسول اللہ ٔ سے ثابت ہیں مثلاً فرض نمازوں سے پہلے اور انکے بعد کی سنتیں، نماز چاشت اور قیام اللیل وغیرہ۔
سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھتا ہے اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔ ظہر سے پہلے چار اور ا س کے بعد دو، مغرب کے بعد دو، عشاء کے بعد دو اور فجر سے پہلے دو رکعات‘‘۔ ( الترمذی: 415وصححہ الالبانی)۔
قیام اللیل: رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہمیں قیام اللیل کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے جیسا کہ رسولؐ اللہ اس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسولٔ اللہ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپؐ نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کروایا یہاں تلک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے، چنانچہ آپؐ نے 23کی رات کو ہمارے ساتھ قیام کیا اور اتنی لمبی قرات کی کہ ایک تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات کو قیام نہیں کیا۔ پھر پچیسویں رات کو آپؐ نے قیام کرایا یہاں تلک کہ ایک تہائی رات گزر گئی تو میں نے اللہ کے رسولؐ کو کہا کاش آج آپ ساری رات قیام کرتے اور ہمیں بھی کرواتے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تلک کہ امام قیام ختم کر دے تو اس کیلئے پوری رات کے قیام کا اجر لکھ دیا جائے گا۔ پھر چھبیسویں رات گزر گئی اور آپؐ نے قیام نہیں کروایا، پھر ستائسویں رات کو آپؐ نے قیام کرایا اور اپنے گھر والوں اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو بھی بلا لیا اور اتنا لمبا قیام کیا اور کروایا یہاں تلک کہ سحری کا وقت ہو گیا اور ہمیں سحری کے فوت ہو جانے کا ڈر لاحق ہو گیا‘‘۔ ( ترمذی: 806، حسن صحیح ابودائود: 1375، نسائی: 1605، ابن ماجہ: 1327وصححہ الالبانی)۔
یہاں ایک بات واضح رہے کہ قیام اللیل یہ کوئی الگ نماز نہیں ہے بلکہ نماز تراویح بھی قیام اللیل ہی ہے اس لئے خصوصاً رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں نماز تراویح لمبی پڑھنی چاہئے جیسا کہ رسولؐ اللہ کے عمل سے ثابت ہے جو آپؐ نے 23،25،27ویں کو کرکے دکھایا خود بھی قیام کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجماعین کو بھی کروایا۔ اس میں خصوصی دعائوں کا اہتمام کرنا چاہئے بالخصوص آخری تہائی رات کے حصہ میں دعائوں کا کثرت کے ساتھ اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا ’’ ہمارا رب جو بابرکت اور بلند وبالا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا تو وہ آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے میں اُس کوبخش دوں، کون ہے جو مجھ سے معافی کو طلب کرے میں اُس کو معاف کردوں، مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہوا ہے ’’ پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تلک کہ فجر روشن ہو جاتی ہے ‘‘۔ ( البخاری 7494،6321،1145۔ مسلم: 758 )
لیلتہ القدر: رمضان المبارک کے آخری عشرے کی فضیلت اور اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس عشرے میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے جس میں کی گئی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’ بے شک ہم نے یہ ( قرآن) لیلتہ القدر یعنی باعزت اور خیر و برکت والی رات میں اُتارا اور آپ کو کیا معلوم کہ لیلتہ القدر کیا ہے؟ لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ( سورہ القدر)۔
اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب اجر و ثواب کی خاطر لیلتہ القدر کا قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘‘۔ ( البخاری: 2014، مسلم: 760)۔
یہ رات کب آتی ہے اس حوالے سے کئی احادیث موجود ہیں۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ رسولؐ اللہ رمضان المبارک کے درمیانے عشرے میں اعتکاف بیٹھتے چنا نچہ جب اکیسویں رات آتی تو آپؐ اور آپؐ کے ساتھ اعتکاف بیٹھنے والے دیگر لوگ اپنے گھروں کو چلے جاتے، پھر جب ایک دفعہ اکیسویں رات آئی تو آپؐ اعتکاف میں ہی رہے اور آپؐ نے لوگوں سے خطاب بھی کیا اور انہیں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے احکامات دئیے پھر آپؐ نے فرمایا میں یہ درمیانہ عشرہ اعتکاف میں گزارتا تھا، پھر مجھے یہ مناسب لگا کہ یہ میں یہ آخری عشرہ اعتکاف میں بیٹھوں، لہذا جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے وہ اپنی جائے اعتکاف میں ہی رہے اور مجھے یہ رات ( لیلتہ القدر) خواب میں دکھلائی گئی تھی وہ بھلا دی گئی، لہذا تم لوگ اسے آخری عشرے میں اور اس میں موجود جو طاق راتیں ہیں، اس میں تلا ش کرو اور میں نے اپنے آپ کو ( خواب میں) دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں چنانچہ اس ( اکیسویں) رات میں تیز بارش ہوئی یہاں تک کہ آپؐ کی جائے نماز پر بھی چھت سے پانی کے قطرے ٹپکنے لگے اور جب صبح کے وقت نماز سے فارغ ہوئے تو میری آنکھوں نے دیکھا کہ آپؐ کی پیشانی پر پانی اور مٹی کے آثار نمایاں تھے‘‘۔ ( البخاری: 2016، مسلم: 1176)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریمؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجماعین میں سے کچھ لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلتہ القدر رمضان کی آخری سات راتوں میں ہے چنانچہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے خواب متفق ہیں اس بات پر کہ یہ رات آخری سات راتوں میں ہے لہذا تم میں سے جو شخص اس رات کو پانا چاہے تو ہو اسے آخری سات راتوں میں پانے کی کوشش کرے ‘‘۔ ( البخاری: 2015، مسلم: 1165)۔
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے لیلتہ القدر کے بارے میں فرمایا کہ لیلتہ القدر ستائسیویں رات کو ہو تی ہے‘‘۔ ( ابو دائود: 1386وصححہ الالبانی)۔
اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجماعین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا جب لیلتہ القدر کو پا لیا جائے تو ہم کیا دعا مانگیں تو آپؓ نے جواب دیا کثرت کے ساتھ یہ پڑھا کرو، ترجمہ: ’’ اے اللہ بے شک تو بہت معاف کرنے والا ہے تو بہت سخی ہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہذا مجھے معاف کر دے‘‘۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریمؐ سے سوال کیا کہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ لیلتہ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں تو آپ سے نے یہ دعا کثرت کے ساتھ پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی ترجمہ: ’’ اے اللہ بے شک تو بہت معاف کرنے والا ہے تو بہت سخی ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، لہذا مجھے معاف کر دے‘‘۔ ( الترمذی : 3513، ابن ماجہ: 3850وصححہ الالبانی)۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ پاک ہم سب کو رمضان المبارک میں کثرت کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان المبارک کے آخری عشرے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے اور لیلتہ القدر کو پانے کی توفیق عطا فرمائے آمین، یا رب العالیمین۔
میاں محمدتوقیر حفیظ