لاہور کا واپڈا ہائوس

تجمل حسین ہاشمی
لاہور میں اب جہاں واپڈا ہائوس ہے جب یہ بلڈنگ نہیں تھی تو ایک زمانہ میں اس جگہ ایک سپاہی کھڑا ہوتا تھا اور وہ ٹریفک کو کنٹرول کرتا تھا ۔ اس کے ساتھ نیلی وردیوں والے خوب صورت آٹھ، سات سکائوٹ کھڑے ہوتے تھے، ان میں سے ایک سکائوٹ نے سپاہی کو آ کے سیلوٹ کیا اور کہا کہ سر وہ موٹرسائیکل سوار سگنل توڑ گیا ہے۔ سپاہی نے کہا جانے دو، کوئی بات نہیں۔ پھر دوسرے سکائوٹ نے کہا کہ سر گاڑی والا سنگل توڑ گیا ہے۔ اس نے کہا جانے دو۔ محترم اشفاق احمد لکھتے ہیں: میں وہاں کھڑا یہ صورت حال دیکھ رہا تھا، میں نے سپاہی سے کہا کہ تم بھلے چودھری ہو، سارے بندے چھوڑ رہے ہو اور یہ سکائوٹ تمہیں سیلوٹ مار رہے ہیں۔ وہ سپاہی کہنے لگا کہ یہ سارے ایچ ای سن کالج کے لڑکے ہیں۔ ان کے گھر والے ان کو گاڑیوں پر یہاں چھوڑ گئے ہیں۔ سپاہی کہنے لگا لعنت ہے، ان تین دنوں میں کسی سے بھی ایک روپیہ رشوت کا نہیں لے سکا ہوں۔ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ اس وجہ سے کہ یہ سارے تمہارے سر پر کھڑے ہیں؟ آپ پیسے لیں بھلا یہ آپ کو روکتے ہیں؟ وہ سپاہی کہنے لگا کہ نہیں سر اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ میرے سر پر کھڑے ہیں، بات یہ ہے کہ یہ آ کر مجھے سیلوٹ کرتے ہیں اور ’’سر‘‘ کہتے ہیں۔ سپاہی کہنے لگا اگر میں ایک پیسہ بھی لوں تو پھر میں لعنتی ہوں کیوں کہ ان کا سیلوٹ مجھے ایک معزز شخص بنا دیتا ہے اور معزز آدمی کبھی رشوت نہیں لیتا۔ سپاہی کہنے لگا میری بیوی رشوت کے پیسے نہ لانے کے باعث مجھ سے ناراض ہے۔ سپاہی کہنے لگا کہ میں سوکھی روٹی کھائوں گا اور جب تک یہ مجھے سر کہتے ہیں اور سیلوٹ کرتے رہیں گے میں رشوت نہیں لوں گا۔ اشفاق احمد کی کتاب زاویہ 2 سے اقتباس ہے۔ اب تھوڑی نظر قومی اسمبلی کے منتخب نمائندوں کی جنہیں قوم نے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔ قوم ان سے اپنی سہولیات کی توقع رکھتی ہے، ان میں کئی ایک قومی خزانہ کے دشمن ثابت ہورہے ہیں۔ لوٹ مار سکینڈل کی اگر بات کی جائے تو ایک لمبی سیریز ہے، کس لیڈر سے شروع کریں اور کس پر ختم کریں، ویسے مجھے EOBIمیں اربوں روپے کا فراڈ یاد آگیا کیوں چند دن پہلے میرا EOBIکے دفتر جانا ہوا۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (EOBI)سکینڈل ایک بڑا مالیاتی سکینڈل تھا، 2013میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA)نے تقریباً 2.5ارب روپے کی کرپشن کے کیس میں سابق چیئرمین ظفر گوندل اور کمیٹی کے رکن پرویز
قاسم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے۔ اس کیس میں سابق ڈائریکٹر جنرل ای او بی آئی خورشید ، اقبال دائود پاک والا، کرنل (ر) اسد مرزا، اور ماہم اسد بھی شامل تھے۔ ان کیخلاف کرپشن کے 18مقدمات درج کئے گئے اور قومی خزانے کو 42ارب روپے کا نقصان پہنچنے کا الزام تھا۔ اسی طرح کے کئی اربوں روپی کے سکینڈل قوم کے بچوں کے مستقبل میں اندھیرا کر چکے ہیں۔ نوجوان روزگار کیلئے پریشان ہے۔ ابھی تازہ تازہ پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن کیلئے ہائر کی گئی کمپنی اربوں روپے ہضم کر گئی ہے لیکن کام ایک آنے کا نہیں کر سکی۔ نگران حکومت کے دور میں گندم سکینڈل پر ہاتھ صاف کئے۔ کون پوچھتا ہے، بندہ خاص تھا، کسی ادارے کو ہمت نہ ہوسکی۔ کسان روڈوں پر آ گیا۔ سستی روٹی کا چکر چلتا رہا۔ ہمارے ہاں کا دستور بن چکا ہے جس کو زیادہ طاقت ملتی ہے وہ قومی خزانہ پر بڑا ڈاکا ڈالتا ہے، قانون اس کو تحفظ دیتا ہے، دیکھ لیں گوندل صاحب کو ضمانت مل گئی تھی۔ پتہ نہیں ان کا کیس کس حالت میں ہے، فائلز تو یقیناً نیب کے پاس ہیں لیکن گوندل صاحب نہیں ہیں۔ حکومتی اتحاد جو ماضی میں ایک دوسرے پر کئی مقدمات قائم کر چکے تھے، پیٹ پھاڑنے کے نعرے مارتے تھے۔ سب نعرے قبر میں دفن کر دئیے گئے ہیں۔ یہ کیسے ہوا ہے؟ جو کئی سال سے مفادات اور اختیارات کی جنگ میں تھے وہ امن و محبت لئے پھر رہے ہیں ۔ کیسے خاموش ہیں۔ آج جمہوری لیڈر میاں نواز شریف جو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کیلئے روڈوں پر تھا، کہاں چلا گیا ہے۔ ایک ایسا تاثر دیا جاتا تھا کہ کوئی سیاسی جماعت اکیلی ملکی مسائل حل نہیں کر سکتی لیکن اب تمام سیاسی جماعتیں اتحادی، ایک صف میں کھڑی ہیں اور عوامی مسائل پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر چکے ہیں۔ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا لیکن چوروں سے نہ بچ سکا۔ ملک میں کرپشن، رشوت ستانی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ دہشت گردی دوبارہ سر پر کھڑی ہے، فوج ایک بار
پھر اس ناسور کو ختم کرے گی، انشاء اللہ۔ عسکری جوان اور عام شہری نشانے پر ہیں۔ افواج پاکستان پر بلا جواز تنقید کی جارہی ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والے ملک دشمن ہیں۔ یہ سوچ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ فوج قربانیاں دے رہی ہے، سول ادارے اور سیاسی جماعتیں ملکی خزانے اور قوم کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟ ملک میں اس وقت بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ گلی محلوں کے معاشی دہشت گردوں پر بھی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری ادارے ٹھیکے پر دینے والوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی تو ناسور ہے لیکن یہ معاشی دہشت گرد اور اداروں کے نام پر پیداگیری کرکے مال سمیٹنے والے سب سے بڑے ناسور ہیں جو اداروں کی پشت پناہی سے عام شہریوں کے سکون اور ان کے تحفظ کے قاتل ہیں۔ منشیات کی سرپرستی سے مال کما کر کھل عام آئین کو پامال کر رہے ہیں۔ یہ افراد ملکی سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہیں۔ گلیوں محلوں میں امن کی بحالی معیشت کی بحالی ہے۔ اس کیلئے سخت احتساب کی ضرورت ہے۔ مولانا سہیل باوا فرما رہے تھے کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی ہے کہ خیانت کرنیوالے کو امانت دار سمجھا جائیگا اور امانت دار کو جھوٹا سمجھا جائیگا۔ یہ فتنہ کا دور ہے، اس دور میں دہشت گردی عام ہوگئی، اس کا سدباب بھی اسلام میں موجود ہے۔ ہمیں دہشت گردی سے نجات کیلئے اصولی موقف اختیار کرنا پڑے گا۔ سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر رہنا ہوگا۔ یہ پیج ہر تین سے سالوں بعد پھٹ جاتا ہے اور مفادات کی جنگ شروع ہوجاتی ہے، فیصلہ سازوں کو تمام صورت حال کا بخوبی علم ہے۔ اگر سب متحد ہو جائیں ملکی معیشت کیلئے بہتر فیصلے کریں، عوامی سہولتوں کا خیال رکھیں، عوامی پالیسی بنائیں تو یقیناً قوم اس موقف کی بھر پور حمایت کرے گی، جیسے ایک سیاسی جماعت دو تہائی اکثریت مانگ رہی تھی قوم نے اکثریت دی لیکن معاشی صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ آج حالات دوبارہ اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں، ان کا سدباب انتہائی ضروری ہے، حکومت کی طرف سے ان کیمرہ اجلاس منعقد کیا جارہا ہے لیکن سلامتی اور معیشت پر تمام کو اپنی پالیسی تبدیلی کرنی ہوگی، سلامتی اور معیشت پر کوئی سیاست قبول نہیں ہونی چاہئے۔