Aqeel Anjam AwanColumn

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ، مسائل، سفارشات اور حکومتی اقدامات

 

عقیل انجم اعوان
14 جون 2023ء کو ایڈریانا نامی ایک ماہی گیری کشتی یونان کے ساحل کے قریب الٹ کر ڈوب گئی۔ اس کشتی میں قریباً 750مہاجرین سوار تھے، جن میں تقریباً 350پاکستانی بھی شامل تھے۔ صرف 104افراد زندہ بچ سکے، جن میں سے 12پاکستانی تھے، جبکہ 500سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ یہ بحیرہ روم میں ہونے والے بدترین بحری حادثات میں سے ایک تھا۔ اس المناک واقع کے بعد اُس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے فی الفور کارروائی کرتے ہوئے اُس وقت کے ڈی جی نیشنل پولیس بیورو ( این پی بی) احسان صادق کو تارکینِ وطن کی اسمگلنگ کے سدباب کے لیے سفارشات پیش کرنے کی ہدایت دی۔ پاکستان سے غیر قانونی ہجرت کی سنگین صورتحا ل نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) کی 2023ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان پانچ سرفہرست ممالک میں شامل ہو گیا جہاں سے سب سے زیادہ لوگ غیر قانونی طور پر یورپ کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ قریباً 40فیصد پاکستانی ملک چھوڑنے کے خواہشمند ہیں جس کی بنیادی وجوہات معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، بے روزگاری، تعلیمی مواقع کی کمی، مہنگائی، اور دہشت گردی ہیں۔2022 ء میں 8778پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپ میں داخلہ ہوئے، جبکہ 2023ء میں یہ تعداد بڑھ کر
13000تک جا پہنچی۔ ان میں سے 10000 افراد واپس نہیں آئے۔ یورپی یونین کی ایجنسی برائے پناہ کے مطابق اکتوبر 2023ء سے اکتوبر 2024کے دوران پاکستانیوں کی طرف سے 28000سیاسی پناہ کی درخواستیں دائر کی گئیں، جن میں سے 12فیصد کو مہاجر کا درجہ یا عارضی تحفظ دیا گیا۔ گزشتہ 10برس میں 7.3ملین پاکستانی بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک چھوڑ چکے ہیں۔
مختلف حکومتوں کے ادوار میں نقل مکانی کی تفصیلات درج ذیل ہیں
2013ء سے 2018ء ( ن) لیگ حکومت: 3.8ملین افراد،2018ء سے 2022ء ( پی ٹی آئی حکومت): 1.3ملین افراد2022ء سے 2023ء ( پی ڈی ایم حکومت): 2.08ملین افراد،2024 ء میں موجودہ حکومت کے تحت: 0.38ملین افراد۔ پاکستانی تارکین وطن زیادہ تر زمینی راستے سے ایران کے ذریعے ترکی اور پھر یونان پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ مصر، دبئی، لیبیا، مراکش یا مغربی افریقی ممالک کا ویزا لے کر وہاں سے انسانی اسمگلنگ نیٹ ورکس کے ذریعے اٹلی، یونان اور سپین پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔2024ء میں بھی کئی خوفناک واقعات رونما ہوئے، جن میں درجنوں پاکستانی جان سے گئے۔ جنوری 2024ء میں 80افراد پر مشتمل ایک کشتی مراکش کے قریب ڈوب گئی، جس میں 40سے زائد پاکستانی ہلاک ہوئے۔ جنوری 2025ء میں مغربی افریقہ کے ساحل کے قریب ایک اور کشتی میں 86مہاجرین سوار تھے، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی، یہ کشتی 13دن تک سمندر میں بھٹکتی رہی، جس کے دوران 50افراد ہلاک ہو گئے، جبکہ 36کو بچا لیا گیا۔ تازہ ترین واقعہ فروری 2025ء میں لیبیا کے ساحل پر پیش آیا، جہاں یورپ جانے والے 65مہاجرین کی کشتی ڈوب گئی، اور 16پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یونان کشتی حادثے کے بعد، 4اگست 2023ء کو اُس وقت کے ڈی جی این پی بی نے وزیرِاعظم کو 27نکاتی سفارشات پیش کیں، جن میں سے اہم نکات درج ذیل تھے: انسانی
اسمگلروں کے تمام اثاثے ضبط کیے اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ (AMLA) 2010کے تحت کارروائی کی جائے۔ بیرونِ ملک مفرور 30انسانی اسمگلروں کو انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائے اور مقدمات چلائے جائیں۔ جن اسمگلروں کے خلاف کئی ایف آئی آر درج ہیں، انہیں پی این آئی ایل ( عارضی قومی شناختی فہرست) ، ای سی ایل اور ریڈ بک میں شامل کیا جائے، اور ان کی گرفتاری پر انعام رکھا جائے۔ کراچی، سیالکوٹ اور ملتان ایئرپورٹ پر ایف آئی اے امیگریشن حکام کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، جہاں سے لیبیا جانے والے مسافر روانہ ہوئے تھے۔ لاہور، گجرات، گوجرانوالہ ، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی، مردان اور پشاور میں موجود ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلز کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ انسانی اسمگلنگ کے قوانین کو سخت کیا جائے، جن میں اسمگلروں کے اثاثے ضبط کرنے، نگرانی کے لیے ہیومن اسمگلرز واچ لسٹ بنانے، اور بار بار جرم دہرانے والوں کو مظلوم کے بجائے مجرم قرار دینے کی تجاویز شامل تھیں۔ ایئر پورٹس پر لیبیا، مراکش، عراق، ایران، ترکی، آذربائیجان، مصر، ملائیشیا، نائیجیریا، اور مغربی افریقی ممالک
جانے والے مسافروں کی کڑی جانچ پڑتال کی جائے۔ اقوامِ متحدہ کے پروٹوکول برائے انسدادِ انسانی اسمگلنگ کی توثیق کی جائے۔ اس جامع رپورٹ کو 2023ء کے دوسرے نصف اور پورے 2024ء کے دوران مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا، کیونکہ 2024ء کے انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام چھایا رہا۔ حکومتی اتحاد میں اتنی سیاسی قوت نہ تھی کہ وہ انسانی اسمگلنگ، دہشت گردی، اور دیگر منظم جرائم کے خلاف موثر کارروائی کر سکے۔ بالآخر 27 دسمبر2024ء کو وزیرِاعظم نے انسانی اسمگلنگ کے مسئلے پر توجہ دی اور وزارتِ داخلہ ، قانون، خارجہ، اطلاعات، ڈی جی ایف آئی اے اور چیئرمین اینٹی منی لانڈرنگ اتھارٹی پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ ایف آئی اے کے لیے سخت کارکردگی اور انضباطی اصول تجویز کیے گئے، ایک الگ امیگریشن ونگ بنانے، اور انسانی اسمگلنگ کے معاملات کی نگرانی کے لیے ایف آئی اے کے سالانہ آڈٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم، اس سب کا واحد نتیجہ یہ نکلا کہ ڈی جی ایف آئی اے کو ہٹا دیا گیا، اور کئی ہفتے گزرنے کے باوجود اس اہم عہدے پر کسی ایماندار افسر کو تعینات نہیں کیا گیا۔ اگر اس عہدے کے لیے تقرری بھی پس پردہ کسی مخصوص حلقے کی منظوری کی محتاج ہوگی، تو پھر اللہ ہی ہماری حفاظت کرے۔

جواب دیں

Back to top button