آئی ایم ایف کا پٹرول بجلی کو مہنگا کرنے کا مطالبہ

پاکستان 2018ء کے اواخر سے گزشتہ برس تک تاریخ کے بدترین دور سے گزرا ہے، یہ انتہائی مشکل حالات تھے، جن سے ملک و قوم کو دہل کر رہ گئے۔ پاکستان ترقی معکوس کا شکار ہوا۔ مہنگائی میں شدّت ہولناک حد تک بڑھی۔ اس نہج تک پہنچی کہ ملک کی ابتدائی 70سال کی تاریخ میں اس کی نظیر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ ہر شے کے دام تین، چار گنا بڑھ گئے۔ غریبوں کے لیے روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا مشکل ہوگیا۔ پاکستانی روپیہ پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں کی نذر کردیا گیا۔ روز بروز اس کی بے وقعتی بڑھتی گئی اور ایشیا کی سب سے مضبوطی کرنسی کہلانے والا پاکستانی روپیہ خطے کی سب سے بے توقیر کرنسی بن گیا۔ اس دوران معیشت کی صورت حال انتہائی دگرگوں رہی۔ صنعتوں کا پہیہ جام سا ہوکر رہ گیا۔ بے روزگاری کا بدترین طوفان آیا، جس سے لاکھوں گھرانے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ متوسط طبقہ کہلانے والے کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ سی پیک ایسے گیم چینجر پر کام رُکا ہوا تھا یا بالکل سست تھا۔ سابق حکومت کی پالیسیوں کے باعث دوست ممالک بھی پاکستان سے رفتہ رفتہ نالاں ہورہے تھے۔ نظام مملکت چلانے کے لیے عالمی اداروں سے دل کھول کر قرض حاصل کیے اور عوام کی مشکلات اور مصائب بڑھائے جارہے تھے۔ ہر نیا دن ملک و قوم کے لیے نئے مصائب کے ساتھ آتا۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ ملک پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی تھی۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم ہوئی، جس نے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے محفوظ بنایا۔ چند ایک بڑے فیصلے کیے، جن کے ثمرات اب تک ظاہر ہورہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مختصر مدت میں اس حکومت نے اپنے بھرپور مثبت اثرات چھوڑے۔ نگراں سیٹ اپ آیا۔ اُس کے دور میں بھی کچھ بڑے اقدامات کیے گئے۔ عام انتخابات کے بعد موجودہ حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ شہباز شریف ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم بنے۔ گزشتہ دنوں شہباز حکومت نے اپنی مدت اقتدار کا ایک سال مکمل کیا ہے اور اس ایک سال کے دوران اس نے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دے ڈالے ہیں جو ماضی میں حکومتیں پوری مدت اقتدار گزار لینے کے باوجود کرنے سے قاصر رہتی تھیں۔ ملکی معیشت کی درست سمت کا تعین ہوچکا ہے جب کہ گرانی کی شرح گرنے
کے ساتھ شرح سود بھی کچھ مہینوں کے دوران 22سے 12فیصد پر آچکی ہے۔ موجودہ حکومت ملک و قوم کے مصائب و مشکلات کے حل کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی ناقص حکمت عملیوں کے باعث اسے بحالت مجبوری عالمی اداروں سے قرض پروگرام لینا پڑرہا ہے اور یہ اس حوالے سے پُرامید ہے کہ بہت جلد ایسا وقت آئے گا کہ پاکستان کو عالمی اداروں کے قرض پروگرام کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزشتہ روز قرض کی اگلی قسط کے لیے پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہوگئے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے پھر ڈومور کا مطالبہ کر دیا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ نے قرض کی اگلی قسط کے لیے مزید کڑی شرائط رکھ دی ہیں، بجلی پر 2روپے 80پیسے سرچارج لگانے کا مطالبہ کیا گیا، پٹرولیم لیوی بھی بتدریج 60سے بڑھا کر 70روپے فی لیٹر کرنے پر زور دیا ہے، ماحولیاتی تحفظ کے لیے کاربن ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، تاہم حکومت نے بجلی پر اضافی سرچارج پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے دیگر ٹیکسوں کی مخالفت کردی۔ رپورٹس کے مطابق قرض کی اگلی قسط کے لیے پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہوچکے ہیں، پاکستان نے اب تک آئی ایم ایف کو بریفنگ میں بتایا ہے کہ مہنگائی 12فیصد ہدف کے مقابلے 7فیصد رہے گی، جی ڈی پی گروتھ ساڑھے 4فیصد تک جاسکتی ہے، آئی ایم ایف نے اگلے تین سال پٹرولیم لیوی میں سالانہ 3روپے فی لٹر اضافے کی تجویز دی ہے، نئی پانچ سالہ انرجی وہیکلز پالیسی پر بھی کام جاری ہے، پالیسی سطح کے مذاکرات میں نئے مالی سال کے بجٹ اور معاشی اہداف پر بھی مشاورت ہوگی۔ آئی ایم ایف ہر بار ڈومور کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ قرض کی اگلی قسط کے لیے حکومت نے ٹیکسوں کی مخالفت کرتے ہوئے عوام دوست اقدام کیا ہے۔ حکومت عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتی ہے، اس لیے اُن کے مصائب میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتی، بلکہ اُن کو ریلیف فراہمی کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ خدا کرے کہ ملک کو قرضوں کے بار اور عالمی اداروں کے پروگراموں سے نجات ملے، تاکہ عوام کی مشکلات کم ہوسکیں۔ اُنہیں ریلیف مل سکے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے، بس ان وسائل کو درست خطوط پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ملک و قوم کے تمام تر مسائل کو وسائل حل کرنے کے لیے کافی ثابت ہوں گے۔
انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ بے نقاب
ملک سے انسانی اسمگلنگ کے قبیح دھندے کا کاروبار ختم نہیں ہوسکا ہے، حالانکہ
پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک جانے والوں کی کشتیوں کو کئی حادثات پیش آئے ہیں۔ ان واقعات میں چار، ساڑھے چار سو پاکستانی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے ہیں۔ گزشتہ برسوں ہونے والے یونان کشتی حادثے میں 300پاکستانی لقمہ اجل بنے تھے۔ گزشتہ مہینوں پہلے یونان پھر مراکش میں کشتی حادثے پیش آئے، جن میں 40، 40پاکستانی جان کی بازی ہارگئے۔ ان واقعات کے بعد ملک میں انسانی اسمگلرز کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا، کریک ڈائون شروع کیا گیا، ابتدا میں اُس میں خاصی تیزی تھی، گرفتاریاں کی گئیں، گروہ کے گروہ پکڑے گئے، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان کارروائی میں کافی کمی آگئی۔ اب بھی سادہ لوح عوام انسانی اسمگلرز کے ہتھے چڑھ رہے ہیں۔ انسانی اسمگلرز سنہری مستقبل کا لالچ دے کر لڑکیوں کو بھی اپنے دام میں پھنسا رہے ہیں۔ گزشتہ روز اچھی ملازمت اور شادی کے جھانسے میں پھنسا کر لڑکیوں کی بیرون ملک اسمگلنگ میں ملوث گروہ کے تین ارکان کو پکڑا گیا ہے۔’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایف آئی اے امیگریشن نے ایک بڑی کارروائی کے دوران پاکستانی لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر بیرون ملک اسمگل کرنے والے گروہ کے تین ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق گرفتار ملزمان کی شناخت شوگئی (یوسف)، عبدالرحمٰن اور محمد نعمان کے نام سے ہوئی ہے جب کہ متاثرہ لڑکی کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ ملزمان متاثرہ لڑکی کو شادی اور ملازمت کا جھانسہ دے کر چین اسمگل کرنے کی کوشش کررہے تھے اور وہ فلائٹ نمبر CZ6034کے ذریعے چین جارہے تھے۔ ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ گروہ پاکستانی لڑکیوں کو چینی شہریوں سے شادی کرواکر انہیں چین اسمگل کرنے میں ملوث ہے۔ اس منظم گینگ میں کئی خواتین بھی شامل ہیں، جو غریب اور ضرورت مند لڑکیوں کو تلاش کرکے انہیں شادی کے لیے آمادہ کرتی تھیں۔ یہ گروہ لڑکیوں سے منہ مانگی رقم وصول کرکے بیرون ملک بھیجا کرتا تھا۔ اس گروہ کے سربراہ سمیت تمام ارکان کی گرفتاری ناگزیر ہے۔ انسانی اسمگلنگ انتہائی قبیح فعل ہے۔ اس کی روک تھام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انسانی اسمگلرز کے خاتمے تک سخت کریک ڈائون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملک کے طول و عرض میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف پے درپے کارروائیاں اُس وقت تک کی جائیں، جب تک ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔