Column

غیر قانونی افغانوں کی واپسی کا مستحسن فیصلہ

تحریر : رفیع صحرائی
حکومت پاکستان کی طرف سے غیر قانونی طور پر مقیم اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو 31مارچ تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے۔ وزارتِ داخلہ نے غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یکم اپریل سے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں کی ملک بدری کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔
دیکھا جائے تو پاکستان ان افغان مہاجرین کے لیے ایک مہربان ملک رہا ہے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 80ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ ان افغانیوں کو پناہ گزیں کیمپوں میں رکھا گیا، ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی اور ان کی خوراک وغیرہ کا بندوبست بھی حکومتِ پاکستان کے ذمے تھا۔ چونکہ افغانستان پر روس قابض تھا اس لیے امریکہ اور یورپی ممالک نے پاکستان پر ڈالروں کی برسات کی ہوئی تھی۔ ان ڈالروں کے سائے میں ہمارے حکمران یہ بات قطعاً بھول گئے کہ ان افغانوں کو واپس ان کے وطن بھی بھیجنا ہے۔ یہ مہاجرین ان کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ گئے تھے۔ افغان مہاجرین نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور مہاجر کیمپوں سے نکل کر پاکستان کے شہروں اور قصبات میں پھیلتے چلے گئے۔ ایک کروڑ کے قریب افغانیوں کو پاکستان میں کینسر کی طرح پھیلانے میں سب سے بڑا کردار ’’نادرا‘‘ نے ادا کیا ہے جس نے تقریباً ہر افغانی کو پاکستانی شناختی کارڈ بنا کر دیا ہوا ہے۔ حکومت نے بہت بڑی تعداد میں افغانیوں کے شناختی کارڈ بلاک کر دیئے ہیں۔ مزید کیے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان ان افغانوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان اپنے سر سے بہت بڑا بوجھ اتار پھینکے گا۔
دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ انہیں مخصوص تعداد اور خصوصی شرائط کے ساتھ ایک علاقے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں افغان پناہ گزینوں کو پورے ملک میں بلا روک ٹوک آنے جانے اور ہر طرح کا کاروبار کرنے کی اجازت ہے جس کی آڑ میں وہ اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ سے لے کر دہشت گرد کارروائیاں بھی کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو پاکستان کے 80فیصد مسائل ان افغانوں کے پیدا کردہ ہیں۔ دہشت گردی، روپے کی گراوٹ، بے روزگاری، اسلحہ اور منشیات کی فراوانی، گاڑیوں کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، انسانی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور معیشت کی تباہی کی بڑی وجہ یہ افغانی ہی ہیں۔
ایک طرف یہ افغانی مختلف جرائم میں ملوث ہیں تو دوسری طرف ہمارے پورے انفرا سٹرکچر پر بھی یہ لوگ قابض ہیں۔ افغانوں نے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کر کے مارکیٹیں اور پلازے خریدے اور کپڑے سے لے کر الیکٹرانکس تک ہر قسم کا کاروبار شروع کر دیا۔ آپ بڑے شہروں میں دیکھیں جگہ جگہ ’’ خان جی‘‘ کے بورڈ مارکیٹوں میں نظر آئیں گے۔ افغانی مالک بنے بیٹھے ہیں اور پاکستانی چند ہزار روپوں پر ان کے ہاں ملازم ہیں۔
افغانستان کی معیشت کا سارا دارومدار پاکستان پر ہے۔ اسے روزانہ کی بنیاد پر قریباً دس سے پندرہ ملین ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے جس کا نصف پاکستان میں مقیم افغانی منی لانڈرز پورا کرتے ہیں۔ یہ افغانی افغانستان سے کوئلہ، میوہ جات اور دوسری اشیاء افغان کرنسی میں خریدتے ہیں اور پاکستان لا کر منافع سمیت پاکستانی روپوں میں فروخت کرتے ہیں۔ افغانوں کو پاکستانی روپیہ اپنے ملک میں لے جانے کی اجازت نہیں ہے چنانچہ وہ منی چینجرز کے ذریعے روپوں کو ڈالروں میں تبدیل کرتے ہیں اور وہ ڈالر افغانستان سمگل کر دیتے ہیں۔ اس غیر قانونی ترسیل سے پاکستان میں ڈالرز میں کمی واقع ہو رہی ہے جس کا دبائو روپے پر پڑ رہا ہے اور یوں روپیہ مسلسل گر رہا ہے جبکہ افغانی کرنسی مستحکم ہو رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ نگران حکومت نے پرائیویٹ طور پر منی چینجنگ کا کاروبار ختم کر کے صرف بنکوں کے ذریعے غیرملکی کرنسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ کرنسی تبدیل کروانے والے کا ریکارڈ مرتب کیا جا سکے نیز اس سے کرنسی کی ملکیت کے بارے میں معلوم ہو سکے اس طرح سے ملک میں موجود غیر ملکی کرنسی ریگولیٹ بھی ہو سکے گی۔
موجودہ حکومت نے غیر قانونی افغانوں کو ملک سے نکالنے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کر کے اس ناپسندیدہ بوجھ سے جان چھڑانا ناگزیر ہے۔

جواب دیں

Back to top button