عمران خان سے ملاقاتیں اور قانونی تقاضے

تحریر : امتیاز عاصی
آئے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان سے ان کے وکلاء اور اہل خانہ سے ملاقاتوں میں تعطل کی خبریں اخبارات کی زنیت بنتی ہیں۔ گو ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کا فقدان ضرور ہے لیکن کوئی بھی ادارہ ہو اس کے قوانین ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد وقت کی ضرورت ہے۔ ملک میں قانون پر عمل داری کچھ نہ کچھ ہو رہی ہے تو ملک کا نظام چل رہا ہے۔ جس ادارے کا کوئی سربراہ ہو اس کی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے وہ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے پی ٹی آئی کے ان وکلاء پر جو روز کوئی نہ کوئی رٹ پٹیشن دائر کئے ہوئے ہوتے ہیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یاد ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے عمران خان سے ملاقات کے لئے طریقہ کار طے کیا تھا جس میں بانی پی ٹی آئی کی طرف سے فراہم کی جانے والی ناموں کی فہرست میں شامل لوگوں سے ہی ملاقات کرائی جائے گی لہذا یہ اصول طے ہونے کے بعد کسی قسم کی شکایت کی ضرورت نہیں رہتی اس کے باوجود ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرائی جاتی ہے جس کا مقصد بعض وکلاء کا ذاتی تشہیر کے سوا اور نہیں۔ کچھ اس طرح کی خبریں گردش کرتی ہیں عمران خان سے بہتر کلاس کی سہولتیں واپس لے لی گئیں ہیں ان کے اخبارات بند کر دیئے گئے ہیں اور انہیں سزائے موت کے سیل میں رکھا گیا ہے وغیرہ۔
قارئین کی معلومات کے لئے عرض ہے جیلوں کے سیلوں میں صرف انہی لوگوں کو عام قیدیوں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے جن کی کوئی نہ کوئی سرکاری حیثیت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی اعلیٰ افسر، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور ملازمین کے علاوہ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کو دیگر قیدیوں سے الگ حفظ ما تقدم کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ جہاں تک سزائے موت کے سیل میں رکھنے کی بات ہے تمام سیل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ چند فٹ پر محیط چار سیلوں کا ایک پہرہ جس میں باتھ روم کی سہولت اندر ہی ہوتی ہے اس کے باہر قیدیوں کی چہل قدمی کے لئے جگہ مختص ہوتی ہے تاکہ قیدی اپنے پہروں کے اندر واک کر سکیں البتہ سابق وزیراعظم کو چار چار سیلوں پر مشتمل دو پہرے الاٹ کئے گئے ہیں جن کی درمیانی دیوار توڑ کر آٹھ سیلوں کا ایک پہرہ بنا یا گیا ہے تاکہ بانی پی ٹی آئی کو چہل قدمی کے لئے زیادہ سے زیادہ جگہ مل سکے۔ عام تاثر یہ ہے عمران خان کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے سوال ہے کیا عمران خان کو کئی ہزار قیدیوں اور حوالاتیوں میں کھلا چھوڑ دیا جائے ؟، عمران خان کو قیدیوں سے الگ رکھنے کا مقصد واضح ہے کہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکی گویا یہی پریکٹس نواز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، سید یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کے دوران جیل تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے عمران خان پر خصوصی نگرانی کے لئے چند جیل ملازمین زیادہ ہو سکتے ہیں تاہم اس کا مقصد یہ نہیں ان کے ساتھ کوئی غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی جیل سپرنٹنڈنٹ نے لکھ کر دیا ہے عمران خان سے باقاعدہ ملاقاتیں کرائی جاتی ہیں تو اس میں دروغ گوئی والی کوئی بات نہیں۔ جیل مینوئل میں قیدیوں اور حوالاتیوں سے ان کے اہل خانہ سے ہفتہ میں ایک بار ملاقاتی ہو سکتی ہے اس کی باوجود جیل سپرنٹنڈنٹس بی کلاس کے کسی قیدی یا حوالاتی سے اپنے صوابدیدی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ہفتہ میں دو مرتبہ ملاقات کی اجازت دے سکتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی سے ان ہمشیرگان اور وکلاء حضرات ملاقاتیں کرتے رہے ہیں یہ تو نہیں ہو سکتا جب کوئی وکیل یا پی ٹی آئی رہنما ملاقات کے لئے جائے تو اسے ملاقات کی اجازت دے دی جائے۔ عمران خان سے ان کے اہل خانہ اور وکلاء کی ہفتہ میں دو بار ملاقاتی کرائی جاتی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے عمران خان کو جیل مینوئل میں دی گئی سہولتوں سے کچھ زیادہ سہولتیں عدالتی احکامات پر مہیا کی گئی ہیں ورنہ بی کلاس کے کسی قیدی یا حوالاتی کو نہ ورزش کے لئے سامان فراہم کیا جاتا ہے نہ ٹی وی سیلوں کے اندر رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کسی قیدی یا حوالاتی کو اپنے طور پر جیل مینوئل میں دی گئی سہولتوں سے زیادہ سہولتیں فراہم کر دئیے۔ اس ناچیز کے خیال میں پی ٹی آئی کے وکلاء کو عمران خان کے خلاف مقدمات سے خلاصی کرانے کے لئے حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ جلد جیل سے رہا ہو سکیں۔ اس حقیقت کے باوجود سوشل میڈیا پر عمران خان کی ہمشیر گان کی طرف سے آئے روز ان سے ملاقات اور صحت بارے پیغام ہوتا ہے بانی پی ٹی آئی کی صحت ٹھیک ہے وہ ہشاش بشاش ہیں ان کی صحت اور ملاقاتوں سے انکار کی خبریں درست نہیں۔ پی ٹی آئی رہنمائوں اور ورکرز کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ملک ہے تو ہم بھی ہیں۔ اقتدار آنے جانی چیز ہے ملکی مفاد کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے جس سے بیرونی دنیا میں ہماری سکھ متاثر ہو۔ سیاست دانوں پر مقدمات بنتے رہتے ہیں بانی کے خلاف مقدمات زیادہ تر مبینہ طور جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ ملک میں بعض سیاست دانوں کے خلاف حقیقت پر مبنی مقدمات کے باوجود ختم کر دیئے گئے یا انہوں نے قوانین میں ترامیم کرکے ختم کرا لئے لہذا پی ٹی آئی رہنمائوں کو بانی کے خلاف مقدمات کے خاتمے کے لئے پرخلوص جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے عوام کے حقیقی رہنما کبھی جیلوں اور سزائوں سے گھبرایا نہیں کرتے بلکہ ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ ایک ذرائع کے مطابق ملک میں دو سیاست دان ایسے ہیں جنہوں نے قید و بند کے دوران حوصلہ نہیں چھوڑا ان میں ایک رانا ثناء اللہ اور دوسرے عمران خان ہیں ۔