سبع مثانی

تحریر : صفدر علی حیدری
سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا افتتاحیہ اور دیباچہ ہے۔ اہل تحقیق کے نزدیک قرآنی سورتوں کے نام توقیفی ہیں یعنی خود رسول کریمؐ نے بحکم خدا ان کے نام متعین فرمائے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن عہد رسالت مآبؐ میں ہی کتابی شکل میں مدون ہو چکا تھا، جس کا افتتاحیہ سورۃ فاتحہ تھا۔ چنانچہ حدیث کے مطابق اس سورے کو’’ کتاب کا افتتاحیہ”‘‘ کہا جاتا ہے ۔
سورۃ فاتحہ کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے ’’ اور بتحقیق ہم نے آپ کو ( بار بار) دہرائی جانے والی سات ( آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے ۔
سبع مثانی سے مراد بالاتفاق سورۃ حمد ہے اور اس بات پر بھی تمام مفسرین متفق ہیں کہ سورۃ حجر مکی ہے۔ بنابریں سورۂ حمد بھی مکی ہے۔ البتہ بعض کے نزدیک یہ سورہ مدینہ میں نازل ہوا۔
تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ سورۃ حمد سات آیات پر مشتمل ہے لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سورہ حمد کا جزو ہے یا نہیں؟
بِسمِ اللّٰہِ کو سورے کا جزو سمجھنے والوں کے نزدیک صراط المستقیم سے آخر تک ایک آیت شمار ہوتی ہے اور جو لوگ اسے جزو نہیں سمجھتے وہ غیر المغضوب علیہم کو ایک الگ آیت قرار دیتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے سورۃ توبہ کے علاوہ تمام سورتوں کا جزو ہے۔
امام محمد باقرؒ نے بسم اللہ کی عظمت سے حوالے سے ارشاد فرمایا ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم سے اتنی نزدیک ہے جتنی آنکھ کی سیاہی اس کی سفیدی سے قریب ہے‘‘ ۔
سورۃ فاتحہ کی فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پورے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ چناں چہ حدیث میں وارد ہے ’’ اے محمدؐ! بتحقیق ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ پس اللہ نے مجھے فاتح الکتاب عنایت کرنے کے احسان کا علیحدہ ذکر فرمایا اور اسے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا۔ بے شک فاتح الکتاب عرش کے خزانوں کی سب سے انمول چیز ہے ‘‘ آیت سے مراد ’ نشانی‘ ہے۔ قرآن مجید کی ہر آیت مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے الگ الگ ہے ۔
آیات کی حد بندی توقیفی ہے ، یعنی رسولؐ خدا کے فرمان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکمل آیت کتنے الفاظ اور کن عبارات پر مشتمل ہے۔ چنانچہ حروف مقطعات مثلاً کہیعص ایک آیت ہے ، جب کہ اس کے برابر حروف پر مشتمل حمعسق دو آیتیں شمار ہوتی ہیں۔
قرآن مجید جس طرح اپنے اسلوب بیان میں منفرد ہے، اسی طرح اپنی اصطلاحات میں بھی منفرد ہے۔ قرآن جس ماحول میں نازل ہوا تھا، اس میں دیوان ، قصیدہ ، بیت اور قافیے جیسی اصطلاحات عام تھیں ، لیکن قرآن ایک ہمہ گیر انقلابی دستور ہونے کے ناطے اپنی خصوصی اصطلاحات کا حامل ہے ۔ قرآنی ابواب کو ’’ سورۃ‘‘ کا نام دیا گیا ، جس کا معنی ہے’’ بلند منزلت‘‘ ، کیوں کہ ہر قرآنی باب نہایت بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے۔
اللہ کے مبارک نام سے ہر کام کا آغاز و افتتاح الٰہی سنت اور آداب خداوندی میں شامل رہا ہے ۔
حضرت نوحٌ نے کشتی میں سوار ہوتے وقت بسم اللہ پڑھی۔ حضرت سلیمان نے ملکہ سبا کے نام اپنے خط کی ابتدا بسم اللہ سے کی اور جب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو اسم خدا سے آغاز کرنے کا حکم ہوا۔ یہ الٰہی اصول ہر قوم اور ہر امت میں رائج ہے ۔
’’ اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں‘‘۔
’’ اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی ( اسمائے حسنیٰ) سے پکارو ‘‘
’’ اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو ‘‘
اس بات پر آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے کہ بسم اللہ جزو سورۃ ہے۔ مکہ اور کوفہ کے فقہاء اور امام شافعی کا نظریہ بھی یہی ہے۔ عہد رسالت میں بتواتر ہر سورہ کے ساتھ بسم اللہ کی تلاوت ہوتی رہی اور سب مسلمانوں کی سیرت یہ رہی ہے کہ سورۃ برائت کے علاوہ باقی تمام سورتوں کی ابتدا میں وہ بسم اللہ کی تلاوت کرتے آئے ہیں ۔ تمام اصحاب و تابعین کے مصاحف میں بسم اللہ درج تھی ، حالاں کہ وہ اپنے مصاحف میں غیر قرآنی کلمات درج کرنے میں اتنی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ قرآنی حروف پر نقطے لگانے سے بھی اجتناب کرتے تھے۔
طلحہ بن عبید اللہ راوی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ جس نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو ترک کیا، اس نے قرآن کی ایک آیت ترک کی ‘‘۔
حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی مشہور ہے : ’’ شیطان نے لوگوں سے قرآن کی سب سے بڑی آیت چرا لی ہے ‘‘
الرحمٰن اور الرحیم، رحم سے مشتق ہیں، جو احتیاج ، ضرورت مندی اور محرومی کے موارد میں استعمال ہوتا ہے ۔ کیوں کہ کسی شے کے فقدان کی صورت میں احتیاج ، ضرورت اور پھر رحم کا سوال پیدا ہوتا ہے اور رحم کرنے والا اس چیز کا مالک ہوتا ہے جس سے دوسرا شخص محروم ہوتا ہے ۔
بعض علما ء کے نزدیک الرحمٰن اسم ذات ہے ، کیوں کہ قرآن میں بہت سے مقامات پر اس لفظ سے ذات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : ’’ کہہ دیجیے! اگر رحمٰن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے ( اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا‘‘۔
اس لیے اس لفظ کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہر کمال اور طاقت کا سر چشمہ ہے، جب کہ انسان اور دیگر مخلوقات محتاج اور ضرورت مند ہیں۔ کائنات کا مالک اپنے محتاج بندوں کو یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے الرحمٰن الرحیم ہے ، کیوں کہ وہی ہر فقدان کا جبران ، ہر احتیاج کو پورا اور ہر کمی کو دور کرتا ہے اور اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے ۔
ہر کام کی ابتدا میں اپنے مہربان معبود یعنی اللہ کا نام لینا آداب بندگی میں سے ہے۔
ہر کام کو نام خدا سے شروع کرنے سے انسان کے کائناتی موقف اور تصور حیات کا تعین ہوتا ہے کہ کائنات پر اسی کی حاکمیت ہے۔ ہر کام اور ہر چیز میں صرف اسی کا دخل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’ ہر وہ اہم کام جسے اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے اپنے مطلوبہ انجام تک نہیں پہنچتا ‘‘۔
چونکہ اس کائنات میں اللہ ہی سب کا مطلوب و مقصود ہے اور اس کے بغیر ہر کام ادھورا اور ابتر رہتا ہے۔ لہٰذا حصول مرام کے لیے اس کے نام سے ابتدا کرنا ضروری ہے۔
الرحمٰن سے رحمت کی عمومیت اور الرحیم سے رحمت کا لازمہ ذات ہونا ، رحمٰن کے صیغہ مبالغہ ہونے اور رحیم کے صفت مشبہ ہونے سے ظاہر ہے ۔ اللہ کے اسماء میں الرحمٰن اور الرحیم کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔
اللہ کی رحمانیت سب کو شامل ہے، جبکہ اس کی رحیمئیت صرف مومنین کے لیے ہے۔
سورۃ حمد کی دوسری آیت کہتی ہے ’’ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے ‘‘۔
ثنائے کامل اختیاری خوبیوں کی تعریف کرنے کو حمد کہتے ہیں۔ الحم دو لفظوں ال اور حمد سے مرکب ہے۔ ال عمومیت کا معنی دیتا ہے اور حمد ثنائے کامل کو کہتے ہیں۔ اردو زبان کی گنجائش کے مطابق اس کا مفہوم یہ بنتا ہے: ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے۔ یعنی اگر غیر خدا کے لیے بظاہر کوئی جزوی ثنا اور حمد دکھائی دیتی بھی ہے تو اس کا حقیقی سر چشمہ بھی ذات خداوندی ہے۔ بالفاظ دیگر مخلوقات کی حمد و ثنا کی بازگشت ان کے خالق کی طرف ہوتی ہے۔
حرام سے اجتناب کرنا نعمت کا شکر ہے اور الحمد للّٰہ رب العالمین کہنے سے شکر کی تکمیل ہوتی ہے۔
آگے ارشاد ہوتا ہے ’’ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے استعانت چاہتے ہیں ‘‘۔
کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ہو سکتے ہیں ۔ کمال، احسان، احتیاج اور خوف۔ اللہ تعالیٰ کی پرستش و عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ہیں ۔
کمال: اگر کسی کمال کے سامنے ہی سر تعظیم و تسلیم خم ہونا چاہیے تو اس عالم ہستی میں فقط اللہ تعالیٰ ہی کمال مطلق ہے، جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نہیں۔ تمام کمالات کا منبع اور سر چشمہ اسی کی ذات ہے۔ آسمانوں اور زمین میں بسنے والے اسی کمال مطلق کی عبودیت میں اپنا کمال حاصل کرتے ہیں۔
احسان: اگر کسی محسن کی احسان مندی عبادت و تعظیم کا سبب بنتی ہے تو یہاں بھی اللہ کی ذات ہی لائق عبادت ہے، کیونکہ وہی ارحم الراحمین ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر رکھا ہے۔
احتیاج: عبادت کا سبب اگر احتیاج ہے تو یہاں بھی معبود حقیقی اللہ ہی ہے، کیونکہ وہ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ وہ علت العلل ہے اور باقی سب موجودات معلول ہیں اور ظاہر ہے کہ علت کے مقابلے میں معلول مجسم احتیاج ہوتا ہے: ’’ اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے ‘‘۔
خوف: اگر وجہ تعظیم و عبادت خوف ہے تو خداوند عالم کی طرف سے محاسبے اور مواخذے کا خوف انسان کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دن اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔
’’ جو نیکی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے، پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جائو گے‘‘۔
اگلی آیت میں خود رب کریم نے انسانوں کو یہ بتایا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر چلتے رہنے کی دعا مانگا کریں۔
’’ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما ‘‘
ظاہر ہے انسان سفر میں ہے سو اسے ہر لحظہ بھٹک جانے کا ڈر رہتا ہے۔ پھر اس کا کھلا دشمن بھی تو گھات لگائے بیٹھا ہے ۔ سو اس سے بچنے سیدھے راستے پر چلنے اور گمراہ نہ ہونے کا واحد حل یہ ہے اللہ تعالیٰ سے اس کی توفیق مانگی جائے ۔ آگے صاحبان حق کا تعارف بھی کرایا گیا ہے کہ اور ان کا بھی جو گمراہ ہوئے یا گمراہ کرتے ہیں۔
’’ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا ، جن پر نہ غضب کیا گیا نہ ہی ( وہ) گمراہ ہونے والے ہیں ‘‘
یہاں پر جناب امیر کی ایک نصیحت درج کرنے کا دل کرتا ہے کو آپ نے عظم مفسر قرآن حضرت عبداللہ ابن عباس کا فرمائی تھی۔
پہلے حق کی پہچان کر لو۔ پھر تمہیں صاحبان حق کی پہچان ہو گی۔
گویا آپ فرماتے ہیں کہ حق سے صاحبان حق کو پہچانو نہ کہ صاحبانِ حق سے حق کی پہچان کا کام لو اور ابن عباس فرماتے ہیں قرآن مجید کے بعد آپ کے اسی قول نے میری رہنمائی کی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے، حق پر چلنے، حق کا ساتھ دینے اور حق کے لیے قیام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!