CM RizwanColumn

ٹرمپ دور کا پہلا بڑا سانحہ

تحریر : سی ایم رضوان
گزشتہ روز دارالعلوم حقانیہ میں ایک خودکش حملہ میں مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد کی ہلاکتیں انتہائی دل خراش اور چونکا دینے والا واقعہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے اور اس قبیح قسم کی دہشت گردی کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ تھوڑی ہے۔ مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم اور جمعیت علمائے اسلام ( س) کے سربراہ مولانا حامد الحق جیسی بڑی شخصیت کی شہادت موجودہ حالات میں چونکا دینے والا واقعہ ہے جس کے ذمہ داروں سے متعلق ابھی بہت کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ابھی تک کسی جہادی یا عسکریت پسند گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم ریسکیو 1122کے مطابق دھماکے میں نو افراد زخمی ہوئے، جن میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ نوشہرہ پولیس کے ڈی ایس پی کے مطابق یہ واقعہ جمعے کی نماز کے فوراً بعد ہوا جب لوگ مسجد سے نکل رہے تھے۔ ایک خود کش بمبار نے داخلی راستے پر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خود کش بمبار نے جو جیکٹ پہن رکھی تھی اس میں چھ، سات کلو بارود تھا۔ تاہم ہماری تفتیش جاری ہے۔ بہت جلد نتیجہ سامنے آئے گا۔ ڈی ایس پی نوشہرہ نے یہ بھی بتایا کہ مدرسے کے طلبہ چھٹی پر تھے ورنہ اموات زیادہ ہوتیں۔ اس سے قبل آئی جی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے بتایا تھا کہ ہمارے 17اہلکار مدرسے اور چھ مولانا حامد الحق کی سکیورٹی پر مامور تھے جبکہ جمعہ کے لئے الگ سکیورٹی دی جاتی ہے۔ مولانا حامد الحق کے بھتیجے محمد احمد نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ خودکش بمبار کا ہدف مولانا حامد الحق تھے۔ بقول محمد احمد جب یہ واقعہ ہوا تو میں قریب ہی اپنے گھر کے گیٹ کے پاس تھا کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ ساتھیوں نے آواز لگائی کہ مولانا حامد الحق پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ ہم نے جا کر دیکھا تو مولانا حامد الحق گرے ہوئے تھے، ہم جلدی سے ان کو اٹھا کر سی ایم ایچ نوشہرہ لے کر گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک مولانا سانس لیتے رہے لیکن اس کے بعد ساتھیوں نے بتایا کہ مولانا کی شہادت ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ تقریباً 80 فیصد لوگ مسجد سے جا چکے تھے۔ خودکش بمبار مولانا کو ٹارگٹ کرنے کے لئے آیا تھا۔ مولانا حامد الحق کے ایک قریبی رشتے دار نے میڈیا کو بتایا کہ مسجد میں دھماکہ نماز کے بعد اس وقت ہوا، جب مولانا حامد الحق امامت کے بعد کھڑے ہوئے۔ رشتے دار کے مطابق نماز مدرسے کے اندر زیرِ تعمیر جامعہ مسجد کے اندر ادا کی جاتی ہے اور مولانا حامد الحق اسی مسجد کے پچھلے دروازے سے امامت کے لئے اندر جاتے ہیں، جن کے ساتھ پولیس کی سکیورٹی بھی موجود ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جوں ہی وہ نماز کے لئے آئے اور نماز ادا کی تو دھماکہ ہوگیا۔ رشتے دار کے مطابق پہلی صف میں عمومی طور پر مولانا کے ساتھ مدرسے کے علما کھڑے ہوتے ہیں اور دھماکے میں زیادہ تر علما جان سے گئے ہیں ۔ دارالعلوم حقانیہ ایک ایسی مذہبی درسگاہ ہے جہاں علمی روایت کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیاں خاص طور پر جہادی اور مذہبی تحریکوں کے حوالے سے بھی کام ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد سے عسکری سطح پر اس مدرسے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے اس مدرسہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کی ایک ایسی یونیورسٹی ہے جہاں سے فارغ ہونے والے طلباء پاکستان اور افغانستان میں مذہبی سیاسی منظر نامے اور عسکری تحریکوں میں متحرک ہو جاتے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں پاکستان اور افغانستان میں جب بھی سیاسی یا عسکری طور پر کوئی تبدیلی سامنے آئی ہے تو اسے مدرسے کے سینئر رہنماں کے کردار، تاثرات اور خیالات کو بھی اس تناظر میں پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ گزشتہ حالات میں جب افغانستان میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا اور ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا تو تب بھی جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا کردار عالمی میڈیا کے زیر نظر رہا اور اب بھی ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس مدرسے سے فارغ التحصیل طالبان رہنماں میں ملا عبداللطیف منصور شامل ہیں جو زیادہ تر پاکستان میں مقیم رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ملا عبداللطیف منصور نے دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی ہے اور انہیں افغانستان کی طالبان حکومت میں پانی و بجلی کا قلمدان دیا گیا ہے۔ اسی طرح مولانا عبدالباقی بھی دارالعلوم حقانیہ میں زیر تعلیم رہے ہیں۔ وہ طالبان حکومت میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر مقرر کیے گئے ہیں جبکہ نجیب اللہ حقانی اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں انہیں مواصلات کا قلمدان دیا گیا جبکہ مولانا نور محمد ثاقب وزارت حج اور زکوٰۃ اور عبدالحکیم صحرائی بھی اسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں جنہیں وزارت انصاف کا قلمدان دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ افغان طالبان کے ترجمان محمد نعیم بھی دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین بھی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تعلیم رہے ہیں۔
یہ مدرسہ جمعیت علماء اسلام ( سمیع الحق گروپ) کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق کی وجہ سے بھی زیادہ شہرت رکھتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں مولانا سمیع الحق کو بابائی طالبان بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اس مدرسے کی بنیاد ان کے والد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے پاکستان بننے کے ایک ماہ بعد یعنی ستمبر 1947 ء میں رکھی تھی۔ یہ مدرسہ پشاور سے اسلام آباد جانے والی شاہراہ جی ٹی روڈ پر اکوڑہ خٹک کے مقام پر واقع ہے۔ ماضی میں افغانستان سے تجارت اور آمدورفت کے لئے یہ ایک اہم مقام رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی افغانستان سے بڑی تعداد میں لوگ اس مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ افغان طالبان کی عبوری کابینہ میں اب تک پانچ سے زائد وزیر اور اعلیٰ اہلکار ایسے ہیں جنہوں نے جامعہ حقانیہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ افغان طالبان کی پہلی حکومت میں جامعہ حقانیہ کے متعدد افراد شامل تھے۔ اس مدرسے میں سابق افغان رہنما مولانا جلال الدین حقانی، مولانا یونس خالص، مولانا محمد نبی محمدی اور دیگر نے تعلیم حاصل کی تھی اور یہ وہی قائدین ہیں جنہوں نے سوویت یونین کو شکست دی تھی۔ ان افغان رہنماں کے بعد ان کے بچے اور پوتے اور نواسے بھی یہیں سے تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اور وہ اب مختلف عہدوں پر تعینات ہیں۔ صرف افغانستان نہیں پاکستان میں بھی مختلف شعبوں میں اس مدرسے سے فارغ افراد کام کر رہے ہیں، پارلیمان میں بھی سیاسی مذہبی رہنماں میں اس مدرسے کے رہنما شامل ہیں۔
دہشتگردی کے مذکورہ واقعہ میں کابل میں دولتِ اسلامیہ کے حامی سمجھے جانے والے مذہبی رہنما مولانا حامد الحق کے قتل کے محرکات کو فوری طور پر تلاش کیا جائے تو بات اس طرح شروع کی جا سکتی ہے کہ امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کیے گئے۔ ان میں دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ مولانا سمیع الحق کی جماعت اور ان کے مدرسے نے بھی بھرپور آواز اٹھائی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندی میں جب اضافہ ہوا تو اس وقت حکومت نے مولانا سمیع الحق سے تعاون طلب کیا تھا تاکہ علاقے میں امن قائم ہو اور تشدد کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔ یاد رہے کہ اپنے مخصوص نقطہ نظر کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جامعہ دارالعلوم حقانیہ کو فنڈز بھی جاری کرتی رہی۔ سال 2019ء میں کے پی کے کی صوبائی حکومت نے اس مدرسے کو تین کروڑ روپے کی گرانٹ دی جبکہ پی ٹی آئی کے سابق دور میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی اس مدرسے کے لئے اچھی خاصی گرانٹ منظور کی تھی جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی تھی۔ یاد رہی کہ اس وقت مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے سوال اٹھایا تھا کہ جس مدرسے سے تعلق رکھنے والوں نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل میں کردار ادا کیا، انہیں یہ ’’ انعام‘‘ کیوں دیا گیا ہے۔
بہرحال یہ تو طے ہے کہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کوئی عام مدرسہ نہیں اس مدرسے کا عسکریت پسندی اور مذہبی سیاسی تحریکوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار رہا ہے گو کہ پاکستان میں دیگر مدارس بھی علمی روایت کے علاوہ مذہبی سیاست اور عسکریت پسندی میں کردار ادا کرتے رہے ہیں ان میں جامعہ حقانیہ بھی شامل ہے۔ اس ادارے کا اثر اب بھی ہے اور اس وقت افغانستان کی حکومت، شوریٰ اور اداروں میں ایسے لوگ شامل ہیں جو اس جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں یا اس جامعہ سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے لئے بھی جامعہ حقانیہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک ایسے موثر چینل کو استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے پالیسیوں کے نفاذ میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ جامعہ حقانیہ کی ایسی روایات موجود ہیں جس کے ذریعے مختلف اوقات میں اس چینل کو استعمال کیا گیا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ جب ریاستی اداروں کی پالیسیاں تبدیل ہوئیں تو اس مدرسے نے ان پالیسیوں کی لئے بھی کردار ادا کیا جیسا کہ پیغام پاکستان کا سلسلہ تھا جس میں اس مدرسے کا دہشت گردی کے خلاف فتویٰ بھی شامل ہے اور جامعہ حقانیہ کے قائدین اس پالیسی کو ساتھ لے کر چلے۔ حال ہی میں جب فوجی کمانڈ نے طالبان کو خوارج قرار دیا تو یہ مولانا حامد الحق ہی تھے جنہوں نے اس دہشت گرد گروہ کو خوارج کہا اور ان کے خلاف عسکری آپریشن کی حمایت کی۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اس ادارے کا ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تصادم سامنے نہیں آیا البتہ کچھ مواقع پر مدرسے کی جانب سے اختلافی آوازیں ضرور سامنے آئی رہی ہیں مگر موجودہ حالات میں پاک فوج کو اس مدرسہ سے کوئی شکایت نہیں۔ ان حالات میں اس مدرسے کے ایک رہنما کی دہشت گردی سے ٹارگٹ کلنگ کو انتہائی غیر معمولی اور بین الاقوامی ڈیزائن کی تبدیلی کا اشارہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے فی الحال اسے اگر ٹرمپ دور کا پہلا بڑا سانحہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔

جواب دیں

Back to top button