کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ، عوا م کے جان و مال کا یقینی تحفظ

تحریر : فیاض ملک
پنجاب میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح ظاہر کرتی ہے کہ صوبے میں قانون اور انصاف کے نظام میں کئی خامیاں موجود ہیں، ایک وقت تھا کہ پنجاب بھر میں سنگین نوعیت کے جرائم کے خاتمے کیلئے پولیس کے سی آئی اے ونگ کا کردار انتہائی قابل ذکر رہا ہے ، جرائم پیشہ افراد سی آئی اے کا نام سن کر ہی بدکتے دکھائی دیتے تھے ، پولیس کے اس ونگ میں تعینات اس وقت کے جغادری افسران کی ہر سو دہشت ہی دہشت نظر آتی تھی، ڈکیتی، راہزنی، زیادتی، قتل، منظم چوری، شوٹر مافیا، بدمعاشوں اور منشیات کے سمگلر سمیت جو بھی ان کے ہتھے چڑھا بس پھر کیا اسکی خیر نہیں ہوتی تھی ، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب پولیس آرڈر 2002معرض وجود میں آیا تو پھر اس ونگ کو انویسٹی گیشن کے سپرد کر دیا گیا تھا جہاں اس میں مزید جدت لاتے ہوئے اس کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ،2023 میں پولیس آرڈر 2002میں تبدیلی لاتے ہوئے سی آئی اے کے نام تبدیل کرکے آرگنائزڈ کرائم یونٹ رکھتے ہوئے اس کا سربراہ ڈی آئی جی عہدہ کا افسر مقرر کر دیا گیا تھا، ان تبدیلیوں کے پنجاب بھر میں جرائم کی شرح ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ بڑھ رہی تھی، آئی جی سے لیکر آر پی او، ڈی پی او اور سی پی او تک کے تمام افسروں کے دعوے تھے کہ صوبے میں، ان کے ریجن میں، ضلع میں اور ڈویژن میں جامع
پالیسیوں کی وجہ سے گزشتہ سالوں کی نسبت سنگین و عام نوعیت کے جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے، لیکن ہوا یہ کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے ہی چراغ سے، جرائم کی شرح میں اضافے کا انکشاف بھی پنجاب پولیس کے ہی 2024ء کے جرائم کا ریکارڈ میں سامنے آیا تھا، شاید اسی لئے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ مریم نواز نے آئی جی پنجاب سے لیکر آر پی او، ڈی پی او اور سی پی او تک کے تمام افسروں کے ساتھ کی جانیوالی ایک میٹنگ میں بڑھتے ہوئے جرائم کے ساتھ ساتھ سزا کی کم شرح پر، خاص طور پر منشیات کی فروخت اور سٹریٹ کرائم کے مقدمات میں اپنی مکمل ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے بیشتر افسروں کی سخت سرزنش کی تھی، بڑھتے ہوئے جرائم کو کنٹرول کرنے کیلئے اب بات اس میٹنگ پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب جوکہ جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں، انہوں نے آرگنائزڈ کرائم میں کمی اور عوا م کے جان و مال کا یقینی تحفظ بنانے کیلئے زبانی جمع خرچ کرنے اور پولیس افسروں کی طفل تسلیوں پر یقین کرنے کی بجائے پولیس کے انتظامی ڈھانچہ میں بڑی تبدیلی کر دی گئی اور آرگنائزڈ کرائم یونٹ کو نئے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ ( سی سی ڈی یونٹ ) میں ضم کرتے ہوئے پنجاب پولیس کی تاریخ کے پہلے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے قیام کی منظوری دیدی، جس کا بنیادی مقصد آرگنائزڈ کرائم میں کمی اور عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا، اس کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں تعیناتیوں کی منظوری بھی دیدی گئی جبکہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہونگے۔
جن کے ماتحت تین ڈی آئی جی، ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں ایس ایس پی، ایس پی اور ہر ضلع میں ڈی ایس پی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا، یہ ونگ مجموعی طور پر 4258افسروں و اہلکاروں پر مشتمل ہوگا جس میں پنجاب پولیس سے 2258افسر اور اہلکار فوری طور پر ٹرانسفر کیے جارہے ہیں، یہ یونٹ7 بڑے آرگنائزڈ کرائم میں کمی کیلئے خدمات سرانجام دے گا، جن میں قتل اور زیادتی کے واقعات پر کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ فوری طور پر حرکت میں آئے گا بلکہ صوبے کے مختلف علاقوں میں موجود شوٹر مافیا پر قابو پانے کیلئے فوری اقدام کرے گا۔ اسی طرح سی سی ڈی آرگنائزڈ قبضہ مافیا، بین الصوبائی گینگز ،گینگسٹرز اور مافیاز پر قابو کیلئے سرگرم عمل ہوگا، ڈکیتی، راہزنی، زیادتی، قتل، منظم چوری، لینڈ مافیا کیخلاف فوری کارروائی بھی اسی یونٹ کے ذمے ہوگی، منظم جرائم پر قابو پانے کیلئے سی سی ڈی پنجاب بھر میں جرائم اور مجرموں سے متعلق ڈیٹا مینجمنٹ کا ذمہ دار بھی ہوگا اور اسکے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے پولیس آپریشنز کو مزید موثر بنائے گا بلکہ دیگر صوبوں کی قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیوں سے بھی تعاون کرے گا۔ پنجاب کا یہ پہلاکرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرے گا، جس کیلئے اس یونٹ کو ڈرون سرویلنس ٹیکنالوجی مہیا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جوکہ کسی بھی جرم کے سرزد ہونے کی صورت میں یہ سرویلنس ڈرون پانچ منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچ جائے گا اور مانیٹرنگ شروع کر دے گا، یہی نہیں بلکہ اس یونٹ کیلئے نئی بلڈنگز، گاڑیوں اور جدید آلات کی منظوری بھی دیدی گئی ہے، سی سی ڈی کو کیسز کا عدالتوں میں چالان جمع کروانے کا اختیار بھی حاصل ہو گا اور اسے صوبے بھر میں کارروائیاں کرنے کا مکمل اختیار دیا جائیگا اس حوالے سے قانونی طریقہ کار اور اختیارات کے حوالے سے ورکنگ مکمل کر لی ہے۔ سی سی ڈی کا ہیڈکوارٹر لاہور میں پولیس کی قربان لائن میں بنایا جا رہا ہے جس کیلئے باقاعدہ کام شروع ہو چکا ہے، تمغہ شجاعت حاصل کرنیوالے ڈی آئی جی عہدے کے آفیسر سہیل ظفر چٹھہ جوکہ ڈی جی اینٹی کرپشن بھی ہیں انہیں اس اہم شعبے کا اضافی چارج دیا گیا ہے، پولیس سروس کے 30ویں کامن سے تعلق رکھنے والے سہیل ظفر چٹھہ کا شمار انتہائی اچھے اور باوقار پولیس آفیسرز میں ہوتا ہے ، بحیثیت پولیس آفیسر فیلڈ کے وسیع تجربے کے ساتھ اے ایس پی سے لیکر ڈی پی او سمیت وہ جہاں پر بھی تعینات رہے انہوں نے وہاں پر ہی شوٹر مافیا، بدمعاشوں اور بڑے بڑے منشیات کے سمگلر کا خاتمہ کیا ہے، ڈی پی او راجن پور اور رحیم یار خان میں تعیناتی کے دوران ان کی موثر کرائم کنٹرول پالیسیوں کی وجہ سے سنگین وارداتیں طوفان کی شکل اختیار کرنے کی بجائے دم توڑ گئی تھیں، جس پر ان کو اس وقت کے آئی جی پنجاب حبیب الرحمٰن نے بیسٹ ڈی پی او آف پنجاب کے ایوارڈ سے نوازا تھا، یہ بلا خوف و خطر کچے میں موٹر سائیکل پر پٹرولنگ کرتے تھے، انہوں نے اپنی مختلف تعیناتیوں کے دوران چیلنج سمجھے جانیوالے بیشتر مقدمات ٹریس کر کے ان میں ملوث ملزمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا، جس سے جرائم کی شرح میں حقیقی کمی واقع ہوئی۔ ان کی اسی کارکردگی اور دلیری کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس ونگ کی ذمہ داری ان کے سپرد کی ہے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب پولیس میں سی آئی اے سے آرگنائز کرائم یونٹ اور اب کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کا نام بننے والا یہ یونٹ اپنے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ کی سربراہی میں صوبے بھر میں ہونیوالے سنگین نوعیت کے جرائم میں واضح کمی لائے گا اور اس کو لانی بھی چاہیے، بلاشبہ ہمارے ہاں بھی مہذب معاشرے کے قیام اور کمزور کو طاقتور سے نجات کیلئے پولیس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، پنجاب پولیس دنیا بھر میں جرائم کے خلا ف اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اپنا ثانی نہیں رکھتی، پولیس سروس کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ وہ عوام کا اعتماد حاصل کرے ملزمان کو فوری کیفر کردار تک پہنچایا جائے تو جرم کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا، یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جرم کبھی ختم نہیں ہو سکتا مگر قانون کے خوف سے اسے کم تو کیا جا سکتا ہے، جرائم پیشہ افراد میں واضح خوف نظر آنا چاہیے، وزیر اعلی مریم نواز کے پنجاب میں جرائم کو کنٹرول کرنے کیلئے کئے جانیوالے یہ اقدامات یقینا شہریوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔
فیاض ملک