Columnمحمد مبشر انوار

امریکی ترجیحات

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد، امریکہ ایک لحاظ سے کرہ ارض کا سرپرست بنا بیٹھا ہے اور دنیا بھر میں اس کا حکم اور برتری بہت حد تک تسلیم کی جاتی رہی ہے ماسوائے چند ایک ممالک، جو امریکہ کے مد مقابل کھڑے دکھائی دیتے تھے۔ ان ممالک میں سوویت یونین، افغانستان کی جنگ کے بعد ٹوٹنے تک، حصے بخرے ہونے تک، بہرطور امریکہ کے مدمقابل خم ٹھونک کر کھڑا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رہا لیکن افغانستان میں شکست کے بعد، سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے اور سوویت یونین اپنی حیثیت کھو بیٹھا، نتیجہ یہ نکلا کہ روس بھی امریکی دبدبے اور رسوخ کا شکار ہو گیا تاہم شکست ریختہ ہونے کے باوجود بہرطور روس مکمل طور پر امریکہ کے سامنے نگوں نہیں ہوا بلکہ درون خانہ اپنی تگ و دو میں جاری رہا تا کہ مستقبل میں اپنی حیثیت کو دوبارہ حاصل کر سکے لیکن اس دوران امریکہ اس تمام صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھا اور کسی بھی صورت اپنے مقابل کسی دوسری طاقت کو پنپنے نہیں دینا چاہتا تھا، لہذا روس کے لئے یہ اتمام آسان بھی نہ تھا۔ البتہ دوسری طرف چین ایک ایسا ملک تھا جو بڑی خاموشی سے پیش قدمی کرتا رہا اور اپنی ان کاوشوں کو کسی نہ کسی طور پوشیدہ بھی رکھنے میں کامیاب ہوا تو اس میں کسی حد تک امریکی جلد بازی نے، چین کا کام مزید آسان بنا دیا۔ سوویت یونین کے افغانستان میں شکست کھانے کے بعد، امریکہ چین کی گو شمالی کی خاطر، افغانستان پر چڑھ دوڑا، جو آج ثابت ہو رہا ہے کہ امریکی غلط منصوبہ بندی تھی کہ اگر امریکہ چین پر نظر رکھنے کے لئے افغانستان میں براہ راست کودنے کی بجائے، دور رہتے ہوئے ہی، ٹیکنالوجی کی مدد سے چین پر اپنی نگرانی کرتا رہتا یا دیگر ذرائع سے، جو یقینا امریکہ کے پاس تھے اور ہیں، چین کی پیش قدمی پر گہری نظریں رکھتا تو عین ممکن تھا کہ امریکہ کی گرفت عالمی معاملات پر مضبوط رہتی ۔ تاہم آج جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے اور امریکی گرفت عالمی معاملات میں قدرے کمزور دکھائی دیتی ہے اور اپنی اس گرفت کو قائم رکھنے کے لئے امریکہ کو نئے سرے سے منصوبہ بندی کرنا پڑ رہی ہے گو کہ عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ دنیا میں جنگیں بڑھا کر بذریعہ صنعت اسلحہ سازی، اپنی معاشی حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے تو اس کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کی آڑ میں، اپنی معاشی حیثیت کو مستحکم رکھے ہوئے ہے جبکہ مشرق وسطی کے معدنی وسائل کی خرید و فروخت کو ڈالر سے نتھی کرکے، اپنی کرنسی کی مانگ کو برقرار اور مستحکم کئے ہوئے ہے۔ اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ جو اسلحہ بن رہا ہے اس کی طلب بھی ہو اور طلب بغیر تجربہ یا اسلحہ کی کارکردگی کے ممکن نہیں لہذا اسلحہ کی کارکردگی ایک طرف اسلحہ ساز فیکٹری میں کی جاتی ہے تو دوسری طرف اس کا وسیع تر تجربہ میدان جنگ میں کرنا مقصود ہوتا ہے، اس مقصد کے لئے امریکہ ایک عرصہ سے، مشرق وسطیٰ سمیت کئی ایک دیگر ممالک میں میدان جنگ سجائے ہوئے ہے۔ مشرق وسطیٰ میں میدان جنگ سجا کر ایک تیر سے کئی شکار کھیلے جارہے ہیں کہ ایک طرف تو امریکی اسلحہ زیادہ تر امیر مسلم ممالک کے ہاتھ بیچا جارہا ہے کیونکہ خطے کے حالات ہمہ وقت ان کی بقاء کے لئے خطرات سے پر رہتے ہیں تو دوسری طرف اس اسلحہ کے استعمال کی تربیت و مشاورت و استعمال کے لئے امریکی ماہرین کی موجودگی لازم ٹھہرتی ہے۔ بہرحال یہ معاملات تو ہر اس جگہ موجود ہیں کہ جہاں مشتری ہوشیار باش نہیں یا اس کے استعداد و اہلیت و قابلیت پر سوالیہ نشان ہیں یا ازخود دباؤ کے تحت لگائے گئے ہیں یا معاہدات میں بازو مروڑ کر ان خدمات کو لازم شامل کروایا گیا ہے تا کہ اپنی معیشت کو مضبوط رکھا جا سکے۔
اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ عالمی برادری میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے معیشت کا مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے کہ جس گھر میں دانے اس کے کملے بھی سیانے اور جیب میں رقم ہو تو بونگی بھی عقل و دانش سمجھی جاتی ہے جبکہ خالی جیب والوں کی پر حکمت و پرمغز باتیں بھی بونگیاں اور ہوا میں اڑا دی جاتی ہیں۔ تاہم ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں اور گردش ایام بدلنے میں دیر نہیں لگتی اور بندوں اور اقوام پر دن پھرتے بھی زیادہ وقت نہیں لگتا اور اللہ رب العزت کا فرمان ہر جگہ صادق نظر آتا ہے، اسی طرح موجودہ حالات کے تناظر میں ماہرین کی رائے بھی یہی ہے کہ وقت بدل رہا ہے اور زمام اقتدار امریکہ کے ہاتھوں سے نکلتی دکھائی دیتی ہے کہ چین اس وقت معاشی اعتبار سے امریکہ سے کہیں آگے دکھائی دے رہا ہے جبکہ ٹیکنالوجی میں بھی امریکہ کا بہرطور مقابلہ کر رہا ہے، اس کے باوجود یہ کہنا کہ چین فوری طور پر امریکہ کے متبادل کی حیثیت لے لے گا، قبل از وقت ہو گا۔ امریکی رسوخ کے پس پردہ دیکھا جائے تو یہ حقیقت انتہائی واضح ہے کہ امریکی منصوبوں کے مطابق ایک طرف امریکہ نے دنیا بھر میں جمہوریت و انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھائی ہے تو دوسری طرف ان امور کے لئے خطیر رقمیں بھی مختص کی ہیں، بالخصوص پسماندہ ممالک میں امریکی امداد کے نام پر، امریکہ نے خطیر سرمایہ منتقل کیا اور اس کی آڑ میں اپنا کنٹرول ان ممالک میں قائم رکھا ہے۔ اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لئے، ازل سے یہی طریقہ کار رہا ہے کہ طاقتور ریاست، کمزور ریاستوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے یا اپنی دھاک /کنٹرول رکھنے کے لئے، کمزور ممالک کی مالی امداد کر کے، ان کی عزت نفس کو مجروح کرتی ہیں، یا انہیں اپنا زیر دست بناتی ہیں اور بتدریج ریاست کو مفلوج کرکے، ان کی خود مختاری پر قابض ہو جاتی ہیں جبکہ ہم پلہ ریاستوں کو کمزور کرنے کے لئے، ان کے خلاف سازشیں رچائی جاتی ہیں تا کہ ان کو کمزور کرکے ، بلاشرکت غیرے حکمرانی کی جائے، یہ سوچ اور خواہش ہر دور میں اور ہر طاقتور ریاست کی رہی ہے۔ اس طرز عمل کو ہوس اقتدار سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف مسلم حکمرانوں کی جانب سے جو فتوحات تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ رکھی ہیں، ان کی ساخت و ہیئت و ترکیب قدرے مختلف رہی ہے کہ ایک آفاقی دین کی موجودگی میں، مسلم حکمرانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہوس اقتدار کی بجائے، اس آفاقی دین کی ترویج کے لئے بروئے کار آئیں، پوری دنیا کو اس دین کی دعوت دیں، تسلیم نہ کرنے پر جزیہ کا مطالبہ کریں وگرنہ تلوار سے فیصلہ کریں۔ اپنے ابتدائی دور میں مسلمانوں کی غیر یقینی فتوحات کے سامنے بند باندھنے کے لئے، غیر مسلم انتہائی پریشان دکھائی دئیے کہ عرب کے شہسوار دین مبین کی تسبیح میں پرو کر ناقابل تسخیر ہو گئے لیکن باہمی چپقلشوں اور اختلافات کے باعث، اپنی ان غیر یقینی فتوحات کا سلسلہ برقرار نہ رکھ سکے اور بتدریج اغیار کے تسلط میں چلے گئے تاہم اس کے باوجود، مسلم حکمران کروٹیں لیتے رہے اور تاریخ میں اپنا نام درج کرواتے رہے ہیں۔
آج بھی عالمی سطح پر مسلمہ عالمی طاقت کو اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لئی غیر معمولی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکلتے نظر آ رہے ہیں، جس میں بالخصوص جو بائیڈن کا دور حکومت تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور مورخ اسے اس تنزلی کا سبب قرار دے گا، اس کی اہلیت پر سوالیہ نشان رہے گا گو کہ بائیڈن انتظامیہ اور امریکی مقتدرہ اس طریقہ کار پر متفق تھے لیکن نتائج انتہائی مختلف نظر آتے ہیں۔ موجودہ صدر ٹرمپ، بائیڈن انتظامیہ اور مقتدرہ کے طریقہ کار کے برعکس، مخالفت کرتے ہوئے، امریکی عوام کی جانب سے منتخب ہوئے اور اپنے اقتدار کے ایک ماہ میں ہی، سابقہ پالیسیوں کے خلاف کھل کر بروئے کار آئے ہیں، بیشتر جنگیں ان کی پالیسیوں کے باعث، رک چکی ہیں اور اپنے حریفوں سے بھی وہ مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ دنیا میں امن قائم کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں! ایسے تمام اتحاد، جو امریکہ نے وقت کے تناظر میں اپنے اثر و رسوخ کے لئے قائم کر رکھے تھے اور جنہیں امریکہ مالی امداد دیتا تھا، صدر ٹرمپ نکلنے کے واضح اشارے دے رہے ہیں تا کہ امریکی معیشت پر لدے بوجھ کو کم کیا جاسکے اور امریکی عوام کے لئے بہتری کی جا سکے۔ اس ضمن میں، سب سے اہم اتحاد ’’ نیٹو‘‘ کے خاتمے کا اعلان بصورت دیگر اس میں شامل حریفوں سے قابل قدر حصہ بقدر جثہ، طلب کیا جا چکا ہے جبکہ امریکی امداد پر بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ و باضابطہ آڈٹ کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ ان اقدامات سے بظاہر یہ تاثر ابھرتا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے امریکہ اپنے پروں کو سکیڑ رہا ہے جب کہ اس طرح کے اقدامات کا مقصد اپنے کنٹرول کو مزید پختہ کرنے کا تاثر بھی دیتا ہے کہ اس طرح جو امداد دی جاتی رہی ہے، اس کا مصرف بذات خود دیکھنا اور ایسے ممالک جو اس امداد کی خورد برد میں ( جو اکثریتی ممالک کی ہے) ملوث ہیں، سے جواب طلبی امریکی رسوخ کا بین ثبوت ہو گا اور امداد وصول کرنے والے ممالک کی خود مختاری پر اثر انداز ہونا جبکہ تنظیموں کی چھان پھٹک کے بعد، جواب طلبی اور قرار واقعی سزائیں، امریکی طاقت کا اظہار ہو گا۔ اس پس منظر میں، یہ اقدامات بے دریغ امریکی وسائل کو بلاوجہ دیگر ممالک میں جھونک کر آنکھیں بند رکھنے کی بجائے، حساب کتاب کرنے اور مسابقتی دنیا سے نکلنے کی ممکنہ نئی امریکی ترجیحات ہوں گی۔

جواب دیں

Back to top button