انحطاط

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس کا سامنا پاکستان اور پاکستانی قوم کر رہی ہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان جمہوری انداز اور طور طریقوں سے معرض وجود میں آیا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا خواب تھا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ بنے گا جہاں مسلمان اپنے دین کی پیروی آزادانہ کریں گے۔ پاکستان ایک ایسی ریاست کے طور پر سامنے آئے گا کہ جہاں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں گے، کسی پر جبر نہیں ہو گا اور اسے اپنے مذہبی عقائد ادا کرنے کی بھرپور آزادی ہو گی، پاکستان ایک جمہوری ریاست ہو گی جہاں عوامی نمائندے پاکستان کے مستقبل کے فیصلے کریں گے۔ بدقسمتی سے برطانوی پارلیمانی جمہوریت، جو آج دنیا بھر میں ایک مسلمہ طرز حکومت ہے اور بیشتر جمہوری ممالک میں پارلیمانی طرز حکومت رائج ہے تا ہم کئی ایک ایسی ریاستیں بھی ہیں کہ جہاں صدارتی طرز حکومت رائج ہے لیکن اس کی بنیاد وہی جمہوری اقدار ہیں جو برطانوی سرزمین سے ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ جس کے مطابق جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے، لہذا جو بھی طرز حکومت ہو، خواہ صدارتی یا پارلیمانی، اس میں امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی گنتی کے مطابق ہی، زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو کامیاب امیدوار تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ شکست خوردہ امیدوار کے متعلق بھی یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کی عوامی حمایت اپنی جگہ لیکن حق نمائندگی زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو حاصل ہے۔ دوسری طرف شکست خوردہ امیدوار نئے مقابلے تک ،اپنی عوامی خدمت کو جاری رکھے اور نئے مقابلے میں ،نئی تیاری ،حوصلے اور ہمت کے ساتھ اترے اور اگر عوامی حمایت حاصل کر لے تو حق نمائندگی ،اسے میسر ہو گا،بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوامی نمائندگی کی خواہش لئے بیشتر امیدوار ، فانی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن انہیں عوامی نمائندگی نصیب نہیں ہوتی جبکہ کئی ایک اس معرکے کو سر کر لیتے ہیں اور کئی ناقابل شکست رہتے ہوئے ،حق نمائندگی کا حق کماحقہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ تیسری دنیا کے کئی ایک ممالک میں ،حق نمائندگی کی خواہش اتنی شدید تر ہوتی ہے کہ عوامی نمائندے، عوامی حمایت کے بغیر بھی، حق نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، ایسی ایک مثال بنگلہ دیش کی دی جا سکتی ہے تو دوسری مثال بلا شک و شبہ پاکستان کی دی جا سکتی ہے کہ یہاں ایسے ایسے قد کاٹھ کے سیاستدان موجود ہیں،جو درون خانہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی عوامی حمایت کس قدر ہے لیکن ہوس اقتدار میں جبرا عوامی نمائندگی کا حق حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد سے گزر جانا ان کے لئے انتہائی معمولی بات ہے۔ ایسے سیاستدانوں کی فہرست میں ،نواز شریف کو کسی بھی صورت مائنس نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ انتخابات میں جو درگت مسلم لیگ ن کی بنی ہے،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن ڈھٹائی کی حد ہے کہ لیگی امیدواروں نے ،ساکھ پر جھوٹی و جعلی نمائندگی کو ترجیح دی اور واضح شکست کے باوجود فارم 47پر اپنی کامیابی کو تسلیم کر لیا،گو کہ پس پردہ ان امیدواروں نے جہاں دائو لگا، ہر ممکن دھونس،دھاندلی اور قبل از انتخاب کامیابی کے لئے تما م تر حربے استعمال کئے لیکن اس کے باوجود انہیں فارم 47پر کامیابی دلوائی گئی۔ ان بڑے ناموں میں سب سے اہم نام ایک طرف تو نواز شریف کا بذات خود ہے ،جبکہ شریف خاندان کے تمام انتخابی امیدواروں بھی فارم 47کے مطابق ہی کامیاب قرارپائے ،سیالکوٹ سے خواجہ آصف کا نام نامی بھی ایسے ہی سیاستدانوں کی فہرست میں شامل ہے جو گزشتہ انتخابات میں بھی جنرل باجوہ منت ترلا اور مداخلت کے باعث کامیاب ہو پائے تھے، لاہور سے ہی دو ایسے ن لیگی امیدواران کہ جن متعلق یقین واثق تھا کہ لاہوری انہیں کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے، عون چودھری اور عطا تارڑ، لیکن یہ دونوں اشخاص بھی فارم 47پر ہی کامیاب قرار پائے جبکہ ان کی نسبت ، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ نے اپنی شکست تسلیم کی اور فارم 47پر کامیابی گوارا نہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی فکر کا بخوبی مظاہرہ کیا۔
یہ وہ حقائق ہیں کہ جن کے متعلق اب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوام عالم بخوبی جانتی ہے، جس کا سہرا بہرطور تحریک انصاف کے کارکنان کے سر سجا ہے، جو بہرطور گزشتہ ادوار میں نہیں ہوتا تھا اور عالمی برادری بھی ،اس پر بہت زیادہ سوال نہیں اٹھاتی تھی کہ اگر مدعی سست ہو تو گواہ کو چست بننے کی کیا ضرورت ہے لیکن اب بہرحال معاملات برعکس ہیں اور عالمی برادری ان معاملات پر اپنا سخت ردعمل دیتی نظر آ رہی ہے۔ یہاں پاکستانی مستفید طبقہ اور سہولت کاروں کی رائے مختلف ہے اور وہ اس سارے عمل خاصے چین بہ جبیں نظر آتے ہیں اور تحریک انصاف کے لتے لینے سے باز نہیں آ رہے ،ان کا یہ موقف کہ اس طرح پاکستان کی عالمی برادری میں بدنامی ہوتی ہے اور درون خانہ معاملات کا ڈھنڈورا یوں عالمی برادری میںپیٹا نہیں جانا چاہئے ،کسی حد تک درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ڈھنڈورا کب تک نہ پیٹا جاتا؟ماضی کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ ،جمہوری عمل کو گدلا بلکہ اب تو تعفن زدہ کہنا چاہئے کو کب تک عالمی برادری کی نظروں سے چھپایا جا سکتا ہے اور کب تک جمہوریت کے ساتھ یہ شرمناک سلسلہ جاری رہے گا؟ اگر اندرون خانہ ہم خود اس کو ٹھیک کرنے سے قاصر ہیں تو کیا مستفید ہونے والے اور ان کے سہولت کار اس بدنامی کے ذمہ دار نہیں ہیں؟کیا پاکستانیوں کو یہ حق نہیں کہ جس جمہوریت سے دنیا بہرہ مند ہو رہی ہے، اس کے ثمرات اس کے شہری بھی سمیٹ سکیں؟حد تو یہ ہے کہ فارم 47پر منتخب ہونے والے ان جعلی عوامی نمائندگان کی حالت یہ ہے کہ سہولت کاروں کی جانب سے جو احکامات جاری ہوتے ہیں،انہیں بلا چوں و چرا تسلیم کرلیا جاتا ہے،ان کی اپنی سیاسی سوچ کسی ایک جگہ بھی نظر نہیں آتی ماسوائے یہ کہ انہوں نے ذاتی معاملات کو بذریعہ ایسی قانون سازی،جسے دنیا بھر میں مذاق سمجھا جاتا ہے،درست کر لیا ہے ،اپنی لوٹ مار کو تحفظ دے لیا ہے اور پاکستانی وسائل کو مزید لوٹنے کے لئے کمربستہ ہیں۔ عالمی اداروں سے قرضوں کی بھرمار اور ملک میں صنعتی پہیہ کو تقریبا روک دینے والی پالیسیوں پر عمل درآمد،زراعتی شعبہ کو پیسنے تک،مقامی کسان سے کم قیمت فصل خریدنے اور اسے غیر معیاری بیجوں کی فراہمی و مہنگی کھادکا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کپاس کی ریکارڈ کم فصل جبکہ متوقع طور پر گندم کا کاشت میں خصوصی کمی کے اشارئیے ،حکمرانوں کے کوتاہ قد ہونے کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا اپنی کوششوں میں ہے کہ کس طرح آنے والے وقت میں اپنے شہریوں کے لئے خوراک کا سستا حصول یقینی بنائے،ہم ایک زرعی ملک ہونے کے دعویدار،اپنے ملک سے زراعت کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور دوسرے ملک کے کسان کو فائدہ پہنچانے کے لئے بے تاب ہیں کہ اس سے ہماری ذاتی تجوریوں میں بھاری بھرکم کمیشن سمٹ سکتا ہے۔
اس پس منظر میں ،فارم 47کی جعلی حکومتیں بضد ہیں کہ نہ کسی سیاسی کارکن ،نہ ریاستی مشینری اور نہ ہی کاشتکار کو احتجاج کا حق ہے، حد تو یہ ہے کہ صحافیوں کو بھی اپنی رائے دینے کا کوئی حق نہیں اور جو صحافی بھی اپنی بے لاگ رائے دینے کی کوشش بھی کرے گا تو اسکا انجام ارشد شریف شہید کی مانند ہو گا یا اسے عمران ریاض خان کی طرح اذیتیں دی جائیں گی اور اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس ارض پاک سے بادل نخواستہ غیر قانونی طریقوں سے نکل جائے۔ احتجاج کرنے والوں کے لئے تو دہری تہری مصیبتیں ہیں کہ ان پر براہ راست تو ظلم و ستم کیا ہی جاتا ہے، انہیں دبائو میں لانے کی ہر ممکن کوششیں کی جاتی ہیں جبکہ ان کے عزیز و اقارب کو بھی اب ان سزائوں سے مبرا نہیں سمجھا جا رہا، جو انصاف کے اصولوں سے کلی طور پر انحراف ہے کہ زید کی سزا بکر کو نہیں دی جا سکتی اور ایک بے گناہ کو بچانے کے لئے سو گنہگاروں کو چھوڑنا بھی پڑے تو خسارے کا سودا نہیں، لیکن یہ تمام اصول، ضابطے اور اخلاق، ان کے لئے ہیں جو ضابطہ اخلاق کو تسلیم کرتے ہوں یا ان پر عمل درآمد کرنا جانتے ہوں۔ فارم 47پر حکومت میں آنے والے اور ان کی سہولت کاری کرنے والے، ان اخلاقیات کو کہاں تسلیم کرتے ہیں وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ عطاتارڑ لندن میں ہونے والے احتجاجی مظاہرین کو یہ دھمکی دیتے کہ برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کے احتجاج پر نہ صرف ان کی شہریت ( شناختی کارڈ اور پاسپورٹ) کینسل کریں گے بلکہ پاکستان میں ان کے عزیز و اقربا کے خلاف کارروائی بھی کی جائیگی، اس سے زیادہ قحط الرجال اور انحطاط کیا ہو گا!!!