ملاقات پر پابندی

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں جب ظلم و ستم حد سے بڑھ جائے تو اللہ کریم اپنی مخلوق کی آسانی کے لئے ہمیشہ کوئی نہ کوئی شخصیت ایسی بھیجتا رہا ہے، جو اس کی مخلوق کو ظلم و ستم سے نجات دلاتی ہے اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ ہر فرعون را موسیٰ، مراد کہ وقت کے ہر فرعون کی سرکوبی کے لئے کوئی موسیٰ ابھرتا رہا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ناانصافی و ظلم و ستم کے جب حد سے بڑھ جائے تو عوام الناس سے ہی کوئی نہ کوئی رہبر ایسا سامنے آتا ہے جو نظام سے بھڑ کر، بے بس عوام کو اس سے نجات دلاتا ہے، یا کبھی کبھار ظلم کی یہ رات اتنی تاریک ہو جاتی ہے کہ انصاف کا علم اٹھانے والا اس کے ثمرات دیکھنے سے قبل ہی دنیا سے اٹھ جاتا ہے یا سٹیٹس کو، کی قوتیں اسے پردہ سکرین سے ہٹا نے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن وہ حق و انصاف کا وہ علم کوئی دوسرا اٹھاکر اس جدوجہد کو جاری رکھتا ہے۔ اس کی ایک مثال گزشتہ صدی میں تحریک پاکستان کی ہے کہ برصغیر میں مسلم لیگ کو قائم کرنے والے، آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے تو اور لوگ تھے لیکن مسلم لیگ کو کامیابی دلانے والا شخص، ایک وقت میں متحدہ ہندوستان کی آزادی کے لئے بروئے کار تھا لیکن حالات کی ستم ظریفی کہیں یا متحدہ ہندوستان کی آزادی کا علم اٹھانے والوں کی بدنیتی کہ وہی اکیلا شخص بعد ازاں دو قومی نظرئیے کا سب سے بڑا علمبردار بنا اور دنیا کی دو مکار ترین قوموں سے برصغیر کے مسلمانوں کو الگ ریاست دلوا کر دم لیا۔ برطانوی مورخ اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں، جو بہرطور مخاصمت پر مبنی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب محمد علی جناح نے تن تنہا ان کے تمام تر خواہشات کے برعکس الگ ریاست کے مطالبے سے دستبرداری اختیار نہیں کی اور انہی کے قوانین کے اندر رہتے ہوئے، برصغیر میں ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کو یقینی بنایا، تو انگریز مورخ کے لئے لازم ٹھہرا کہ وہ اس کی کردار کشی کرتے، جو انہوں نے کی لیکن کسی بھی طور محمد علی جناحؒ کی شخصیت کو گہنا نہ سکے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان بعینہ قائد اعظمؒ کے افکار کے مطابق نمو نہیں پا سکا اور معرض وجود میں آتے ہی، رسہ کشی کا شکار ہو کیا، جو ہنوز جاری ہے۔ اسی طرح کئی ایک ایسے کردار بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ جنہوں نے ظلم کے نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور غریبوں کے ہمدرد بن کر سامنے آئے، جنہیں آج بھی تاریخ یاد رکھے ہوئے ہے، ایسے ہی ایک کردار کے متعلق یہ ڈائیلاگ آج بھی اکثر بولا جاتا ہے کہ ’’ دن کو راج فرنگی کا اور رات کو راج ملنگی کا‘‘ اس میں کس قدر حقیقت ہے یا کس قدر افسانہ، اس سے قطع نظر، جو سمجھنے والی حقیقت ہے وہ یہی ہے کہ ہر وہ کردار جو ظلم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، امر ہو جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اس پس منظر پر کءی ایک فلمیں و ڈرامے بھی بنے ، جس میں ایسی شخصیت کو بالخصوص زیادہ پذیرائی ملی، جو معاشرے کے ظالموں کے خلاف نبردآزما ہوا، خواہ وہ محدود سطح کا رہا ہو یا ریاستی سطح پر اس کا دائرہ کار رہا ہو، ایسے کردار ہمیشہ عوام میں پسند کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ قلمبند کرنے کا ایک خاص مقصد ہے کہ اس خطے میں ناانصافی کا دور دورہ آج سے نہیں بلکہ بہت پرانا اور صدیوں سے روا رہا ہے ماسوائے چند ایک ادوار کو چھوڑ کر، جس کے باعث یہاں کی عوام ایسے کرداروں کو نہ صرف پسند کرتی ہے بلکہ ایسے کسی بھی کردار کے ساتھ والہانہ وابستگی کا اظہار بھی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی مثالوں میں سب سے اہم ترین مثال تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہے، جنہیں اس برصغیر کے مسلمانوں نے سرآنکھوںپر بٹھایا اور ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، حاکم انگریز قوم اور اس کی اتحادی مکار ہندو قوم سے آزادی حاصل کی، جبکہ بعد ازاں شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ میں یہ مقام حاصل ہے کہ قوم نے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، باقی رہنمائوں کی حالت شیخ حسینہ واجد جیسی ہی رہی ہے۔
گو کہ بے نظیر بھٹو یا نواز شریف کو اقتدار تو ملا لیکن نواز شریف سے متعلق عوامی حمایت ہمیشہ مشکوک رہی اور اس حوالے سے حقائق انتہائی شرمناک ہیں کہ کہنے کو جمہوری لیکن درحقیقت ان کا اقتدار و عوامی مقبولیت ’’ بیساکھیوں‘‘ کے سہارے رہی۔ بھٹو مخالفت میں سیاسی میدان میں قدم رکھنے والے تاجر نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی ہمیشہ حصول اقتدار رہی، اس کے لئے، وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے ہمیشہ تیار نظر آئے، لولا لنگڑا اقتدار حاصل کرنے کے بعد نواز شریف میں یکدم انقلابی روح بیدار ہوتی لیکن مصائب کا سامنا کرنے کی بجائے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی اور انقلاب کو بیچ منجدھار چھوڑ کر کبھی ’’ سرور پیلس‘‘ یا پھر ’’ ایون فیلڈ فلیٹس‘‘ان کا مسکن رہا، جو بہرطور کسی انقلابی کا کبھی طرہ امتیاز نہیں رہا۔ بدقسمتی سے یہی لائحہ عمل بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو کے برعکس، نے بھی اپنایا اور مشکل اوقات میں ان کا ٹھکانہ دوبئی یا لندن رہا لیکن بے نظیر کی پہلی جلاوطنی بہرحال اس زمرے میں نہیں آتی کہ اس وقت واقعتا بے نظیر کو جبری طور پر جلا وطن کیا گیا تھا تاہم ان کی واپسی چند ضمانتوں کے عوض ہی ممکن ہو پائی تھی کہ جنرل ضیاء کی موجودگی میں ان کی واپسی اس کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ ان دو سیاسی شخصیات کی موجودگی میں کسی تیسری سیاسی شخصیت کا، نمودار ہونا، تقریبا ناممکن دکھائی دیتا تھا لیکن حالات کا جبر ایسی قیادت کو منظر عام پر لے ہی آتا ہے بالخصوص جب بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت، نواز شریف سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے شوہر کے مشوروں پر چلنے کو تیار ہو کر بتدریج اپنی عوامی ساکھ سے محروم ہو، تب تیسری سیاسی شخصیت کے لئے راستہ بن ہی جاتا ہے۔ گو کہ تیسری سیاسی شخصیت کی نشو و نما کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس کی تربیت بھی ’’ مخصوص نرسری‘‘ سے ہی ہوئی لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ تیسری سیاسی شخصیت کا نہ صرف اپنا ایک مزاج ہے اور اس کے مزاج میں اپنے موقف پر ڈٹ جانے والی سختی سے نرسری کے باغباں بھی تحفظات کا شکار ہی رہے، جو بعد ازاں درست ثابت ہورہے ہیں۔ نواز شریف کی سخت مزاجی ایک حد تک رہتی ہے کہ زیر عتاب آنے کے بعد، جب تک ان کی ڈیل نہ ہو جائے، ان کی طرف سے تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن جیسے ہی باغباں مائل بہ کرم ہوتے ہیں، نواز شریف کی تندی و تیزی ہوا ہو جاتی ہے اور ان کی شعلہ بیانی، معدوم ہو جاتی ہے اور وہ ایک مخصوص عرصہ کے لئے منظر سے الگ ہو جاتے ہیں جیسا آج کا دکھائی دے رہا ہے اور ان کی جگہ، دختر نیک اختر بخوبی پوری کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی فرعونی نظام کے سامنے عمران خان ایک موسیٰ کی طرح کھڑا دکھائی دے رہا ہے، اس کے لئے انتہائی آسان ہے کہ باغبانوں کی طرف سے فراہم کردہ ڈیل سے مستفید ہو اور اپنے ہم عصروں کی طرح مخصوص مدت کے لئے بیرون ملک خاموشی سے سکونت اختیار کر لے اور بعد ازاں دوبارہ اقتدار میں آ جائے لیکن عمران خان اور اس کے ہم عصروں سے، فی الوقت، یہی ایک واضح فرق دکھائی دے رہا ہے کہ وہ اس ڈیل کے لئے تیار نہیں۔ اس کے بیانات کی تندی و تیزی، باغبانوں کے حوالے سے کسی بھی طور کم نہیں ہو رہی ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے بیانات میں تلخی مزید بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، یوں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے عمران خان نے ٹھان لی ہے کہ وہ اس نظام کو تن تنہا گرا کر دم لے گا یا اپنی جان دینے سے بھی نہیں چوکے گا۔ بظاہر یہ دیوانے کا خواب لگتا ہے لیکن بہرطور کسی نہ کسی کو یہ بیڑا اٹھانا تھا، جو موجودہ حالات میں عمران خان نے اٹھا رکھا ہے، جبکہ اس کی جماعت کے بیشتر رہنما ، جن کی حیثیت تحریک انصاف میں آنے سے پہلے کچھ بھی نہ تھی اور نہ دوسری سیاسی جماعتوں میں ان کی کوئی جگہ بنتی تھی، یہ تحریک انصاف تھی اور عمران خان کی شخصیت تھی، جس نے ان رہنمائوں کو سیاسی پہچان دی اور انہیں ایوانوں میں پہنچایا لیکن بدقسمتی سے ان کی سیاسی بلوغت اتنی نہیں کہ وہ عمران خان کے مقصد کو سمجھ پائیں اور یہ لوگ بہرطور باغبانوں کے ساتھ ملے دکھائی دیتے ہیں، وگرنہ عمران خان کو قید سے رہا کروانا اتنا بھی مشکل نہ ہوتا۔ عمران کو جیسے جیسے موقع ملتا ہے وہ اپنے سیاسی دائو پیچ کھیلنے سے نہیں چوکتا اور اس ضمن میں اپنے وکلاء اور خاندان کی مدد سے نہ صرف اپنی سیاسی سوچ کا اظہار کرتا ہے بلکہ اندرون و بیرون ملک حکمرانوں کے لئے مسائل پیدا کر دیتا ہے، اس مشکل سی نجات اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر اس سے ملاقاتوں پر پابندی لگا دی جائے، جس کا بہت زیادہ امکان موجود ہے۔ گو کہ ایسی کوئی بھی پابندی، عمران جیسے سیاسی قیدی، کے لئے قانونی حیثیت نہیں رکھتی لیکن پاکستان میں اگر قانون نام کی کوئی چڑیا ہوتی، تو اس کی پاسداری بھی ہوتی، کہ پاکستان میں تو منصف خود انصاف کے متلاشی ہیں۔ آج کے دور میں تو قائد اعظمؒ بھی اگر زندہ ہوتے تو ان حکمرانوں کی موجودگی میں وہ بھی عمران ہی کی طرح کسی جیل میں قید ہوتے کہ انگریز بہرطور اپنے بنائے ہوئے قوانین کے باوجود قائد اعظمؒ کو کسی قانون کی خلاف ورزی پر جیل میں نہیں ڈال سکے کہ قائداعظمؒ نے اپنی پوری زندگی کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ ایسے میں عمران جیسے باغی، سر پھرے سیاسی قیدی کو کیسے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، ملاقاتوں کی اجازت مل سکتی ہے، اس کی زباں بندی کے لئے، بس اس کی ملاقاتوں پر ہی پابندی لگ سکتی ہے۔