ٹرمپ اور نیتن کا تیسرا بھائی ’’ گجرات کا قصائی

تحریر : امجد آفتاب
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں دو بھائی ٹرمپ اور نیتن کا ذکر تفصیل سے کیا تھا جبکہ اُن کے تیسرے بھائی ’’ مودی‘‘ کا ذکر نہیں کیا وہ شاید اس لیے کیونکہ تیسرے بھائی اور اس خطے کے خود ساختہ چودھری بننے کے خواہاں نریندر مودی نے اپنے بڑے بھائی ٹرمپ سے ملاقات اس وقت تک نہیں کی تھی جب دو بھائی ٹرمپ اور نیتن ملاقات کر رہے تھے۔ اپنے دونوں بھائیوں کی طرح مودی بھی مسلمانوں پر مظالم ڈھانے میں کسی سے کم نہیں، بطور وزیراعلیٰ گجرات انہوں نے ہندو مسلم فسادات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ فسادات کے دوران مودی نے ہندووں کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ مسلمانوں کی نسل کشی کریں ان پر مظالم ڈھائیں،اُن کو قتل کریں اُن کو املاک کو جلا دیں اور ایسا ہی ہوا۔ 2002ء کے دوران 790مسلمانوں کے خون سے رنگے گجرات فسادات کو دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نریندر مودی کی سرپرستی میں ہندو بالا دستی کے مذموم عزائم کے ساتھ بھارت مسلمانوں کی نسل کشی کے ہولناک راستے پر گامزن ہے۔ یہ فسادات 27فروری 2002ء کو گودھرا میں سبرمتی ایکسپریس ٹرین کو جلانے کے بعد بھڑک اٹھے تھے جس میں ہندو یاتریوں کو ایودھیا سے احمد آباد واپس لے جایا جارہا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق تشدد کے دوران 230مساجد اور 274مزارات کو تباہ کیا گیا۔ تاریخ میں پہلی بار فرقہ وارانہ فسادات میں ہندو خواتین نے بھی حصہ لیا، مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں فرقہ وارانہ قتل عام کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں 1983ء میں نیلی، 1984ء میں دہلی، 1989ء میں بھاگلپور اور 1992۔93ء میں بمبئی شامل ہیں لیکن ان میں گجرات کا قتل عام نمایاں ہے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کو بھی عصمت دری اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والا نریندر مودی گجرات کے فسادات میں سیکڑوں مسلمانوں کے قتل پر کچھ پشیمانی یا شرمندگی کے اظہار کے بجائے ابھی تک بی جے پی کے شدت پسندوں کی دہشت گردی کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہے، جس کا واحد مقصد ہندو بالادستی کے ذریعے تمام غیر ہندو برادریوں کا نسلی صفایا کرنا ہے۔
گجرات فسادات کے بعد روایتی طور پر اس سانحے کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ اس کی منصوبہ بندی بجرنگ دل نے کی تھی۔ 1998ء سی بی جے پی وہاں اقتدار میں ہے اور ان 22سال میں سے، نریندر مودی 2001ء سے 2014ء تک، وزیر اعظم منتخب ہونے تک 13سال تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ گجرات فسادات اکتوبر 2001ء میں مودی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اقتدار سنبھالنے کے صرف چار ماہ بعد ہوئے تھے۔
ہندو توا نظریہ کے حامل مودی نے ٹرین واقعہ کو مسلمانوں کو سزا دینے اور مسلمانوں کی نسل کشی شروع کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔2002ء کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے مودی کی سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف مہم شروع کی جس سے ہندو انتہا پسندی کو سیاسی، سماجی اور ثقافتی طور پر تقویت ملی۔
اس قتل عام کے بعد، یہاں تک کہ سابق ہندوستانی وزیر اعظم اور مودی کے سرپرست اٹل بہاری واجپائی نے بھی ایک بار ان سے کہا کہ وہ کم از کم استعفیٰ پیش کریں لیکن کوئی بھی چیز مودی کو نہیں بدل سکتی، جسے ’’ گجرات کا قصائی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔2008ء میں، ایک انکوائری کمیشن نے ٹرین کو جلانے کو ’’ سازش‘‘ قرار دیا اور تشدد کو روکنے میں مودی کی ناکامی جس نے بالواسطہ طور پر کچھ ہندو فسادیوں کی حوصلہ افزائی کی۔28فروری 2002ء کو احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں مارے گئے آنجہانی کانگریس لیڈر احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے دعویٰ کیا کہ گجرات فسادات ایک سوچی سمجھی مذموم سازش تھی جس میں نریندر مودی کو خونریزی کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔28جنوری 2020ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے 2002ء کے گجرات قتل عام میں ملوث 14مجرموں کو ضمانت دے دی جس نے بھارتی عدلیہ کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے تبصرہ کیا کہ ریاست کی سرپرستی میں نسلی کشی کے واقعات بھارت کے مختلف حصوں میں مذہبی اقلیتوں کے انتہائی خطرے کو ظاہر کرتے ہیں ۔اب چونکہ مودی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہیں، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ نظامی امتیازات، عوامی تقریروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور دیگر اقدامات کے ذریعے ہندوتوا کے نظریے کا پرچار کر رہے ہیں۔
وزیراعظم مودی کی سرپرستی میں کشمیریوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہے۔ مودی کی سرپرستی میں آرٹیکل 370کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا اور اسے بھارت کا حصہ بنادیا تھا۔اُس دن سے لیکر اب تک کشمیر کے مسلمانوں پر بھارت کا ریاستی جبر بڑھ گیا ہے، آئے روز کشمیریوں کی شہادتوں اور اُن کی املاک پر قبضوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ’’ گجرات کے قصائی‘‘ نریندر مودی اپنے کٹر ہندوتوا کے نظریے پر قائم ہیں اور وہ اس نظریے کے تحت انڈیا اور کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھانے اور ان کی نسل کشی کے حق میں ہیں۔ اس مشن کی تکمیل میں انتہاپسند ہندووں کو بے جے پی اور نریندر مودی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ نریندر مودی کے ہاتھ فلسطینوں کے قتل عام بھی بھی رنگے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی کا بھارت، اسرائیل کو فلسطینوں کی نسل کشی کے لیے باقاعدہ طور پر اسلحہ فراہم کر رہا ہے، منافقت کی حد دیکھیں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہاتھوں والے ٹرمپ، مودی اور نیتن تینوں بھائی دیگر ممالک کو امن کا بھاش دیتے پھرتے ہیں دوسرے ممالک پر دہشتگردی کے الزامات لگاتے ہیں۔
میں ایک بار پھر اپنی بات کا اسی پر اختتام کروں گا کہ مسلم امہ کو ان تینوں بھائیوں، اور مسلمانوں کو خون کے پیاسوں ٹرمپ، نیتن اور مودی سے ہوشیار رہنا ہو گا یہ قیامت تک آپ ( مسلمانوں( کے دوست و خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔