معاشی استحکام کا سفر

جب خدمت کے جذبے کے ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے قدم بڑھائے جائیں تو قدرت کی مدد و نصرت شاملِ حال ہوجاتی ہے اور کامیابی لازمی مقدر بنتی ہے۔ سال قبل ملک کی معیشت کی صورت حال انتہائی دگرگوں تھی۔ گزشتہ برس ملک فروری کی 8تاریخ کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا، جس کے نتیجے میں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ نئی حکومت کے لیے حالات کسی طور سازگار نہ تھے، اقتدار اس کے لیے کانٹوں کی سیج کی مانند تھا۔ ملک و قوم کو مصائب و آلام سے نکالنا چنداں آسان نہ تھا۔ شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی ملکی معیشت کو مستحکم و مضبوط بنانے کے مشن میں تندہی سے لگ گئے۔ ان کی ٹیم بھی اس کے لیے سنجیدگی سے کوشاں رہی۔ وزیراعظم نے دوست ممالک کے متواتر دورے کیے اور اُنہیں پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا۔ مختلف شعبہ جات میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا۔ اس حوالے سے سنجیدگی سے قدم بڑھائے گئے۔ وزیراعظم نے شعبہ زراعت اور آئی ٹی میں ملک کو عظیم ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات کے سلسلے شروع کیے گئے۔ لاکھوں لوگوں نے ٹیکس ریٹرن فائل کیا۔ ٹیکس آمدن میں بڑا اضافہ ہوا۔ حکومتی سطح پر کفایت شعاری کو اختیار کیا گیا۔ حکومت کے ایک سال کے دوران کیے گئے اقدامات کے مثبت نتائج آنا شروع ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی معیشت مستحکم و مضبوط ہورہی ہے، اس حوالے سے اس کا سفر جاری ہے۔ گرانی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور وہ سنگل ڈیجٹ پر آچکی ہے۔ شرح سود میں کچھ ماہ کے دوران ساڑھے 10 فیصد جیسی بڑی کمی ممکن ہوسکی ہے۔ پاکستان میں ناصرف بیرونی سرمایہ کاریوں کا سلسلہ شروع ہوچکا، بلکہ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے کے دوسرے مرحلے پر تیزی سے کام بھی جاری ہے۔ مختلف عالمی ادارے بھی پاکستان کی معیشت میں مزید بہتری آنے اور گرانی کم ہونے کے دعوے کر رہے ہیں۔ وزیراعظم گزشتہ روز یو اے ای کے دورے پر گئے ہیں۔ پاکستانی معیشت سے متعلق اُنہوں نے اظہار خیال کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاشی استحکام کا سفر جاری ہے، آئی ایم ایف پروگرام سے مائیکرو اکنامک شعبے میں بہتری آئی ہے۔ دبئی میں پاکستانی تاجروں اور سرمایہ کاروں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہماری توجہ طویل المدتی اصلاحات پر ہے، پائیدار ترقی کیلئے ہمیں ایک ٹیم بن کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی ہوئی جب کہ آئی ٹی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جنوری میں ترسیلات زر تین ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے، معدنیات اور کان کنی کے شعبے پر توجہ دیں گے جب کہ آئی ٹی کے شعبے میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، نوجوانوں کو اے آئی اور آئی ٹی ٹیکنالوجی میں تربیت فراہم کر کے بے پناہ ترقی کے مواقع دیے جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے معدنیات، زراعت اور آئی ٹی سمیت دیگر شعبوں کے فروغ پر بھرپور توجہ مرکوز کر رکھی ہے، زرعی شعبے میں جدت لانے کیلئے ہزار نوجوانوں کو سرکاری خرچ پر تعلیم کیلئے چین بھیج رہے ہیں۔ اس سے قبل وزیر اعظم دو روزہ سرکاری دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچے، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وفاقی وزراء خواجہ آصف، احد چیمہ، محمد اورنگزیب، اویس لغاری، عطاء اللّٰہ تارڑ اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔ وزیراعظم دبئی کے فرمانروا شیخ محمد بن راشد المکتوم کی دعوت پر ورلڈ گورنمنٹس سمٹ میں شرکت کیلئے متحدہ عرب امارات کا دورہ کررہے ہیں۔ مزید برآں وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے لیے سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانا قومی ترجیح ہے، ان کی ترقی اور اختراع میں کلیدی شراکت داری کے لیے ان کو مساوی مواقع اور ہم آہنگ ماحول فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کے کردار کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کے عالمی دن کے موقع پر ہم سائنسی دریافتوں، اختراعات اور قیادت کے ذریعے جدید دنیا کی تشکیل میں خواتین اور لڑکیوں کی نمایاں شرکت کا اعتراف کرتے ہیں، امسال اس دن کا موضوع ’’ مستقبل کی پیش رفت کا نقشہ: بہترین ابھی آنا باقی ہے’’، ہمارے لئے سائنس کے شعبے میں کی گئی پیشرفت اور اس حوالے سے ایک مساوی اور جامع مستقبل کی تعمیر کی نشاندہی کرتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ معاشی ترقی اور سماجی بہبود کے لیے سائنسی تحقیق اور تکنیکی ترقی میں مردوں اور عورتوں کی مساوی شرکت ضروری ہے تاہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی شعبوں میں خواتین کو طویل عرصے سے نسبتا کم نمائندگی دی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے ان اہم شعبوں میں ایک اہم صنفی فرق پیدا ہوا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ پاکستان کی معیشت استحکام کا سفر تیزی سے طے کر رہی ہے، ان شاء اللہ اگلے چند سال میں حالات میں مزید بہتری نظر آئے گی۔ بلاشبہ آئی ایم ایف پروگرام سے خاصی مدد ملی ہے۔ دیکھا جائے تو ملک کو 65فیصد نوجوان آبادی میسر ہے۔ نوجوان مردوں کی طرح خواتین بھی ملکی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈال رہی ہیں۔ سائنس میں خواتین کے کردار کے عالمی دن پر وزیراعظم نے بالکل درست فرمایا۔ حکومتی کاوشیں اس کی واضح دلیل ہیں۔ قدرت کے فضل و کرم سے پاکستان میں وسائل کی چنداں کمی نہیں۔ یہاں کی زمینوں میں عظیم خزینے مدفن ہیں۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ بس وسائل کو درست خطوط پر استعمال کرنے کی رِیت ڈال لی جائے تو آگے چل کر حالات مزید بہتر ہوجائیں گے۔
چینی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ
پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے سلسلے نظر آرہے ہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پچھلے دو ڈھائی ماہ سے مسلسل بڑھی ہیں، جس کا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ اشیاء ضروریہ کے نرخوں پر بھی پڑا ہے، جہاں پچھلے دنوں گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا، 100 روپے تک نرخ بڑھ گئے، وہیں اب چینی کے دام بھی مائونٹ ایورسٹ سر کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ رمضان المبارک سے قبل مہنگائی مافیا پوری شدّت کے ساتھ سرگرم ہے اور ماہِ صیام میں غریبوں کی جیبوں پر بھرپور نقب لگانے کے درپے ہے۔ اسی لیے مختلف چیزوں کے نرخوں میں بڑا اضافہ کرنے کا سلسلہ تواتر جاری ہے۔ عوام پہلے بھی 6 سال تک بدترین گرانی کے نرغے میں رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد اُن کی تھوڑی بہت اشک شوئی ہوسکی ہے، اب اس سلسلے کو ختم نہ کیا جائے، گرانی کا ہیولہ زور پکڑ رہا ہے، اس کو قابو رکھنے کے لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ دو ماہ کے دوران ملک میں چینی کے دام 28 روپے فی کلو زائد ہوچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں چینی کی قیمتوں اور افغانستان کے لیے چینی کی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2024تا جنوری 2025 رواں مالی سال کے 7 ماہ کے دوران افغانستان کو چینی کی برآمد میں حیرت انگیز ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات میں سب سے زیادہ حصّہ چینی کا ہی ہے، رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں افغانستان کے لیے چینی کی برآمد 26 کروڑ 27 لاکھ ڈالر رہی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے جون سے اکتوبر 2024 میں 7 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی، پھر آخری بار اکتوبر 2024 میں 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ 10 ہفتوں کے دوران چینی کی اوسط قیمت 21 روپے 26 پیسے فی کلو بڑھ گئی، چینی کی اوسط قیمت 153 روپے 11 پیسے فی کلو پر پہنچ چکی ہے۔ ملک میں چینی کی زیادہ سے زیادہ قیمت 160 روپے فی کلو تک ہے، چینی کی اوسط قیمت 10 ہفتے قبل 131 روپے 85 پیسے فی کلو تھی۔ چینی کی قیمت میں یہ ہوش رُبا اضافہ عوام کی جیبوں پر بڑی نقب قرار پاتا ہے۔ رمضان سے قبل مہنگائی کو بڑھاوا دینے والے عناصر کے خلاف سخت اقدامات ناگزیر ہیں، تاکہ آنے والے ماہ صیام میں عوام کو لٹیروں کے قہر سے بچایا جاسکے۔ اس حوالے سے پورے ملک میں سخت کریک ڈائون کیا جائے۔ منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کو کسی طور بخشا نہ جائے۔ حکومتی نرخوں پر اشیاء ضروریہ کی فروخت کو ہر صورت لازمی بنایا جائے۔