Column

کبوتر بازی پر سخت پابندی لگائی جائے

تحریر : رفیع صحرائی
حکومت پنجاب نے یہ احسن اقدام کیا ہے کہ کبوتر اور دیگر پرندے رکھنے والوں پر پولیس کے ذریعے کریک ڈائون کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ کبوتر بازوں سے تنگ تمام شہروں اور دیہات میں بسنے والے کبوتر بازوں کے محلے داروں سے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس کی ہیلپ لائن 15پر کال کر کے اپنی شکایت درج کروائیں۔ پولیس نا صرف کبوتر بازوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی بلکہ کال کرنے والے کا نام بھی صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ اس مہم کا آغاز سرگودھا شہر سے کیا گیا جہاں پر اطلاعات کے مطابق کبوتر رکھنے کا کلچر بہت زیادہ فروغ پا چکا ہے۔ مبینہ طور پر شہریوں کی بڑی تعداد نے گھروں کی چھتوں پر بڑے بڑے پنجرے بنا رکھے ہیں۔ کبوتربازوں کے زیادہ تر وقت چھتوں پر گزارنے کی وجہ سے شہری خصوصاً خواتین کو پریشانی کا سامنا تھا۔
یہ مسئلہ صرف سرگودھا شہر ہی کا نہیں ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے ہر بڑے شہر میں یہی صورتِ حال ہے۔ بعض لوگوں نے شوقیہ کبوتر اور دوسرے پرندے پال رکھے ہیں۔ وہ صبح سویرے انہیں دانہ پانی ڈالتے ہیں۔ کام سے واپسی پر بھی گھر میں داخل ہوتے ہی چھت کا رخ کرتے ہیں اور کبوتروں یا چڑیوں طوطوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شہروں میں اتوار کا دن کبوتربازوں کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اس دن کبوتربازی کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ عادی کبوترباز ان مقابلوں کے اس قدر شوقین ہوتے ہیں کہ ان میں شرکت کی خاطر فیملی فنکشنز تک چھوڑ دیتے ہیں۔
جہاں تک قصبوں اور دیہات کا تعلق ہے موسمِ گرما میں کبوتربازی کے مقابلے بڑے اہتمام سے کیے جاتے ہیں۔ کئی جگہوں پر تو اسے ایک فیسٹیول کے طور پر سیلیبریٹ کیا جاتا ہے۔
گرمی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ ہی کبوتر باز حضرات کبوتر بازی کے میچ کروانے کے لیے پر تولنا شروع کر دیتے ہیں۔ مئی جون اور جولائی طوالت کے لحاظ سے سال کے سب سے بڑے دن ہوتے ہیں۔ کبوتروں کی اڑان کے زیادہ تر مقابلے انہی دنوں میں منعقد کروائے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ اپنے اپنے کبوتروں کو بادام اور مختلف کشتہ جات کھلا کر کبوتر اڑائی کے مقابلہ جات کے لیے کبوتروں کی تیاری میں مشغول ہیں۔ کبوتر بازی کے یہ مقابلے ہر سال شدید گرمی میں منعقد ہوتی ہیں۔ کبوتروں کو صبح سویرے اڑان کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور سارا دن ان کو اڑایا جاتا ہے۔ کبوتروں کو شام تک جان لیوا گرمی میں فضا میں رکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات کبوتر باز شور شرابہ اور ہلڑ بازی بھی کرتے ہیں۔ وہ کبوتروں کو ڈرانے کے لیے ہوائی فائرنگ اور پٹاخے بھی چلاتے ہیں تاکہ وہ نیچے نہ اتر سکیں۔ اکثر کبوتر گرمی اور پورے دن کی بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوکر گر پڑتے ہیں۔ یہ معصوم جانور شدید گرمی میں مسلسل اڑان اور پیاس کی شدت سے ہلکان ہو کر اپنی جان سے جاتے ہیں مگر کبوتر باز اس قدر بے رحم اور ظالم ہوتے ہیں کہ ان ننھے جانوروں کی موت تو قبول کر لیتے ہیں لیکن انہیں زمین پر اترنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کی ضد، انا اور ہٹ دھرمی کے آگے معصوم پرندے جان کی بازی ہار جاتے ہیں مگر انہیں کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ الٹا وہ فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے کبوتر نے اپنی جان دے دی لیکن ہار نہیں مانی۔
کبوتر بازی کے ان مقابلوں کے موقع پر صرف کبوتر باز ہی ظالم نہیں ہوتے بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں یہ مقابلے دیکھنے والے شائقین بھی اس ظلم اور سفاکی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ سارا دن کبوتروں کی پرواز والے مقام پر موجود رہتے ہیں اور سارا دن کبوتروں کو اڑتا ہوا دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ کبوتروں کی اڑان، ان کے سٹیمنا اور متوقع نتائج پر تبصرے کرتے ہیں۔ یہ شائقین کبوتروں کی مختلف بازیوں پر رقمیں لگا کر جوا بھی کھیلتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جس کبوتر پر انہوں نے رقم لگائی ہے وہ سب سے آخر میں زمین پر اترے۔ یوں چند روپوں کی خاطر یہ شائقین بھی اس سفاکانہ اور ظالمانہ کھیل میں پوری طرح ملوث ہو جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ ان مقابلوں کے دوران توتکار اور ہاتھا پائی بھی ہو جاتی ہے جو بڑھ کر خونیں لڑائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے اور وائلڈ لائف کو چاہیے کہ اس ظالم شوق پر پابندی لگائیں۔ کبوتر بازی کے مقابلے میں حصہ لینے والے کبوتروں کے مالکان اور شائقین کو پکڑ کر سارا دن بھوکا پیاسا شدید دھوپ میں بٹھایا جائے۔ بلکہ ہو سکے تو ان کی اولاد کو ان کی آنکھوں کے سامنے چند گھنٹے دھوپ میں کھڑا کیا جائے۔ شاید اسی طرح ان ظالموں کو معصوم پرندوں پر کیے جانے والے اپنے ظلم کی شدت کا اندازہ ہو سکے۔ ہر کبوتر باز کو چار چھ مہینے کے لیے جیل میں بھیجا جائے اور اسے ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا جائے۔
کبوتر بازی کی ملک بھر میں سختی کے ساتھ روک تھام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ننھی جانیں بچ سکیں گی بلکہ کبوتر بازی سے ہونے والے لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت سے بھی عوام کو بچایا جاسکے گا۔

جواب دیں

Back to top button