
سی ایم رضوان
یہ فقرہ تو تمام پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کے اکثر کارکنوں اور بانی پی ٹی آئی کے تمام شیدائیوں کی زبانوں سے سن رکھا ہے کہ نعوذباللہ خان نہیں تو پاکستان نہیں۔ حالات و واقعات کے تسلسل اور ان شیدائیوں کے جاری عوامل سے یہ امر وقت کے ساتھ ساتھ ثابت بھی ہوتا جا رہا ہے کہ قوم یوتھ اسی سوچ پر کار بند ہے اور وہ ہر موقع پر اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔ آج دنیا بھر میں منائے جاتے والے یوم یک جہتی کشمیر کے موقع پر بھی اس جماعت کا یہی رویہ سامنے آ رہا ہے اور وہ کشمیر جیسے اہم ایشو پر خاموش ہیں جبکہ اپنی جماعت کے بانی کی رہائی کا غم انہیں کھائے جا رہا ہے۔ یوم یک جہتی کشمیر کی مناسبت سے گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چودھری نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ یوم یکجہتی کشمیر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اس سے پہلے بھی تحریک آزادی کشمیر کے دوران لاکھوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں لیکن کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کے لئے مسلسل قربانیاں دے رہے اور آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے بھارتی مظالم کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گے۔ عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کا بنیادی حق دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوم یکجہتی کشمیر پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی سفارتی حمایت کا مظہر ہے اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک پاکستان کی تکمیل کی جدوجہد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق نہ ملنے تک پاکستان نامکمل ہے۔ طارق فضل چودھری نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر ہم بین الاقوامی برادری کی آواز کے منتظر ہیں، ہم یہ بات بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ چند سال پہلے پاکستان پر عمران پراجیکٹ کے تسلط کے دور میں 15اگست کو کشمیریوں کے حقوق پامال کیے گئے تھے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ یوم یکجہتی کشمیر کو روایتی انداز سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے تحت اس بار شاہراہ دستور پر ایک بڑی واک منعقد کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، 5 فروری کو پاکستان اور آزاد کشمیر میں سیمینار منعقد کیے جائیں گے اور دفتر خارجہ نے بھارتی مظالم پر فارن مشنز کو سیمینارز کی ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔ طارق فضل چودھری نے کہا کہ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تمام صوبائی دارالحکومتوں میں انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بھی بنائی جائیں گی تاکہ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔
پاکستان میں ہر سال پانچ فروری ’ یوم یک جہتی کشمیر‘ کے طور منایا جاتا ہے، جس میں پاکستانی عوام کے علاوہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ اسی مناسبت سے پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے اظہار یک جہتی کے لئے آج پانچ فروری کو آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی) کا اہتمام کیا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی اس اے پی سی کے دعوت نامے کے مطابق اس کا مقصد کشمیری عوام کے ساتھ غیر متزلزل یک جہتی کا اظہار، کشمیر کی موثر وکالت کے لئے سفارتی اور سیاسی حکمت عملی وضع کرنا اور بین الاقوامی برادری کو صورت حال سے آگاہ رکھنے کے لئے مشترکہ قراردادیں اور قابل عمل اقدامات تیار کرنا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد پاکستانی عوام کشمیریوں کے ساتھ اپنی مستقل حمایت کا اعادہ کرتے ہیں اور دنیا کو ایک بلند آہنگ اور واضح پیغام دیتے ہیں کہ کشمیری انڈیا کی قابض افواج کے خلاف اپنی جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔ اس دن مظاہروں، واکس، سیمینار اور دوسری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کی ہیومن رائٹس ونگ کی مرکزی صدر انیلہ ایاز نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی بہت زیادہ متحرک ہے اور ان کا منصوبہ کشمیر کو ایک خود مختار ملک بنانے کی کوشش ہے۔ گزشتہ دنوں کشمیر کا بارڈر بھی بند کر دیا گیا تھا اور وہاں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب پاکستان کشمیر کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے اور اسلام آباد نے ہمیشہ اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر کشمیر کی وکالت کی اور کشمیری عوام کا ایک اچھا وکیل ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ انیلہ ایاز نے بتایا کہ اے پی سی میں شرکت کی غرض سے پاکستان کی دس بڑی سیاسی جماعتوں کو دعوت نامے بھیجے گئے ہیں۔
ان پارٹیوں میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام، عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی)، جماعت اسلامی، پاکستان کے زیر اہتمام کشمیر کی مسلم کانفرنس، جمہوری وطن پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) پاکستان، نیشنل پارٹی، پاکستان نظریاتی پارٹی، عبداللہ گل کی تحریک جواناں، پاکستان پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی شامل ہیں۔ انیلہ ایاز کی مطابق سوائے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے تمام سیاسی جماعتوں نے اس اے پی سی میں شرکت کی یقین دہانی کروائی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سبھی رہنما آٹھ فروری کو ہونے والے اپنے ایک جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، جس کے باعث ان کی جانب سے کوئی واضح پیغام نہیں ملا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ نے اس حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اے پی سی میں شرکت کرنا ہے یا نہیں اس کا جواب ہم سابق وزیر اعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد دیں گے۔ اس حوالے سے پیش رفت ہو رہی ہے اور بانی پی ٹی آئی عمران خان جیسا کہیں گے ہم ویسا کریں گے۔
جب سیاست انفرادی شخصیات کے گرد محدود
ہوجائے تو وہاں اداروں کی مضبوطی قومی ترجیحات کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے کیونکہ انفرادی اور شخصیت پرستی پر مبنی سیاست کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے موضوعات بھی ذاتیات تک محدود ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس رویے کا عملی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں اہم اور حساس معاملات یا موضوعات بہت پیچھے چلے جاتے ہیں اور ہمارے مباحث ایسے معاملات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں جو ہماری ریاستی اور قومی ضرورت کے برعکس ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ معاملات محض اہل سیاست تک یا سیاسی مجالس تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ قومی سطح پر رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں سمیت اہل دانش اور میڈیا کے محاذ پر بھی ہم غیر اہم موضوعات کو بنیاد بنا کر خود بھی اور سیاست کو بھی غیر اہم بناکر منفی سیاست کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سیاسی، سماجی مفکرین، اہل دانش سبھی قومی سطح پر ایک ایسے مکالمہ کے کلچر کو مضبوط بناتے ہیں جس کا مقصد قومی سطح کے معاملات پر مسائل کا حل نکالنا ہوتا ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم نے معاملات کو حل کرنے والوں کی فہرست میں کم اور معاملات کو خراب کرنے والوں کی فہرست میں زیادہ کھڑے اور بالادست نظر آتے ہیں۔ موثر اور بہتر سماج کا حل معاملات کا حل پیش کرنا ہوتا ہے مگر آج ہمارے اکثریتی نوجوان فکری سطح پر ایک ایسی کنفیوزن کو پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں جو ہماری بقا کے لئے غیر اہم بلکہ زہر قاتل ہے۔ یہ ساری خرابی کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئی بلکہ ایک خاص سوچ کی بنیاد پر قومی مزاج کو غیر سنجیدہ شخصیات اور ان کی گھٹیا سیاست کی جانب دھکیلا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مجموعی سیاست سیاسی جماعتوں یا سیاسی اداروں کے مقابلے میں افراد کے سامنے کھڑی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں ہمیں سنجیدہ نوعیت کے حامل افراد نظر آتے ہیں لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں میں بالادست شخصیات یا سیاسی قیادت کے لئے قابل قبول نہیں ہوتے۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ یا تو خود کو سیاسی عمل سے لاتعلق کر لیتے ہیں یا خاموشی اختیار کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں یا ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو حالات سے سمجھوتہ کر کے وہی رویہ اختیار کر لیتے ہیں جو ان سے قیادت چاہتی ہے۔ یہ عمل ان کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار تو بنا دیتا ہے لیکن وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے حصول میں یکسر ناکام ہو جاتے ہیں جس طرح عالیہ حمزہ نے کشمیر جیسے اہم ایشو پر اپنے قائد کی مرضی کو فوقیت دی ہے اور قومی ترجیحات سے منہ پھیر لیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست کے رنگ دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہماری مقبول سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی قومی ایجنڈا نہیں اور نہ ہی ان کا اصل مسئلہ قومی نوعیت کے سنگین مسائل ہیں بلکہ ان کی ساری سیاست مقبول جماعتوں کی قیادت کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اگر ایسی سیاسی شخصیت کی پوجا کی جائے جو کرپشن اور بدعنوانی پر سزا بھگت رہا ہو تو ایسی سیاست سے بہتر ہے کہ بندہ چلو بھر پانی میں ناک ڈبو کر مر جائے۔