ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟

امتیاز یسین
پانچ فروری پاکستان میں مظلوم کشمیریوں اورکشمیرکازسے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ دن 1990ء سے منایا جا رہا ہے جب اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے کہا کہ کشمیریوں سے تجدید عہد، ہمدردی کے بر ملا اظہار اور وابستگی کے لئے ایک خاص دن ہونا چاہئے جس کی منظوری صوبائی اور مرکزی حکومت نے باہمی رضا مندی سے دی۔ یہ وہ ایام تھے جب کشمیریوں کی طرف سے انڈیا کے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور بر بریت کے خلاف مظاہروں اور حریت مطالبہ شدت کے جواب میں انڈین فوج نے سرینگر اور دیگر شہروں میں اکاون سے زائد کشمیریوں کو شہید کر دیا تھا۔اس دن کو منانے کا مقصد بھارت کو یہ باور کروانا ہے کہ تمہارا ظلم و بربریت ، انتہا پسندی، جارحیت و استعماریت کی داستانیں رقم کرنے، کشمیری مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے اور انسانی حقوق کی پامالیاں ہمارے جذبہ حریت اور حقوق کے جدوجہد کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔ مظلوم کشمیریوں کی آواز کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے تاکہ بھارت کی سالہا سال سے جاری ہٹ دھرمی کو عالمی برادری کے سامنے لایا جا سکے کہ بھارت کشمیریوں کی آزادانہ زندگیاں گزارنے میں کس طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کر رہا ہے۔ گزشتہ پچھتر سالوں میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور چار جنگوں کی اہم ترین وجہ کشمیر ہے۔ کشمیر ی نوجوان جس جواں مردی سے انڈین فوج کے ظلم و بربریت کا سامنا کر رہے ہیں ان کی مثالیں انسانی تاریخ دینے سے قاصر ہے۔ تحریک آزادی روئے زمین کی سب سے بڑی، طویل اور کٹھن جدوجہد ہے۔ اقوام متحدہ نے جنوری 1948ء میں کشمیر کا فیصلہ تقسیم ہند اور آزادی کے بنیادی فارمولا کے مطابق کشمیری عوام کی رائے اور امنگوں کے مطابق کمیشن کی زیر نگرانی استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس فیصلے کو تسلیم اور تائید کی لیکن بعد ازاں اس عالمی فیصلے سے باغی و منحرف ہو کر اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں۔ بھارت نے کشمیر کے سب سے زیادہ حصے 101387مربع کلو میٹر رقبہ پر قبضہ کر لیا۔ کشمیری مسلمان اس وقت سے قابض بھارتی فوج کیخلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔وطن عزیز میں کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کا شاندار مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اس مسئلے پر تمام مسلم برادری ایک پیج پر یک جان دو قالب ہو کر کھڑی ہے۔ بھارت کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پانچ اگست 1919سے لیکر آج تک5فروری2025ء تا حال جاری یعنی 2009 دن سے زائد دنیاوی تاریخ کے بد ترین کثیر الجہتی کرفیو اور فوجی محاصرے کا نفاذ، آرٹیکل370جس میں ریاست کشمیر کی حیثیت ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی کے خاتمہ نے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو مزید تیز کر دیا ہے اور کشمیر دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بن گیا۔ بھارت کشمیریوں کے حق خو ارادیت کو کچلنے کے لئے انسانیت سوز ٹارچر بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئر مین یٰسین ملک سمیت کشمیری رہنمائوں کو نئی دہلی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل کر رکھا ہے ان پر تشدد کیا جا رہا ہے مگر حیرت ہے کہ عالمی سطح پر کشمیریوں کے ناحق بہتے خون پر کسی بھی دنیاوی منصفوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ متعدد مرتبہ پابند سلاسل رہنے والے ممتاز حریت رہنما یٰسین ملک کو 22فروری1999ء کو سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا آج تک مظلوموں اور ظلم کی شکار اقوام کی آواز بننے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ماضی قریب میں یٰسین ملک کے خاندان کو ہراساں کرنے کے لئے بھارتی افواج ان کے دو جواں سال بھانجوں اشفاق اور شعیب کو بھی سری نگر کے علاقے مائسیمہ سے گرفتار کر چکی ہے ۔ ایسی صورت حال میں تمام دنیا کی مسلم برادری کو کشمیریوں کا بر ملا ساتھ دینا چاہیے تھا لیکن دکھ کی بات ہے مسلم اقوامِ عالم میں بھی اتفاق و اتحاد کا فقدان ہے۔ اسی کشیدگی میں گزشتہ سے پیوستہ سال وزیر اعظم مودی کا عرب میں استقبال ہونے کے ساتھ ساتھ اسے بڑے اعزاز اور میڈل سے نوازنا کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ کشمیریوں کو ظلم سہتے دیکھتے بہت ہو چکا۔ پاکستان ایک مسلم ملک اور اسلام امن کا درس دیتا ہے۔ امن کا پرچار کرتے کرتے تہتر سال لاکھوں کشمیریوں، عورتوں، بچوں کے خون کی ہولی کھیلتے دیکھتے رہے، بھارتی فورسز کشمیری عورتوں کی عصمت دری و جنسی زیادتی اور حیوانیت جنگی ہتھیاروں کے طور پر کرتے تمام حدیں پار کر چکا، بھارتی ریاستی جبر کو امریکی صدر سیاسی دلاسوں اور طفل تسلیوں سے ٹال رہا ہے۔ دنیا میں قیام امن کے عالمی ضامن داروں کو جو جانوروں، کتوں کے حقوق کی باتیں کرتے ہیں انہیں کشمیر میں انسانی خون کی کئی دہائیوں سے بہتی ندیاں نظر کیوں نہیں آتیں ِ؟ اس دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشمیر کا مسئلہ خطر ناک ترین تنازعات کا روپ دھار چکا ہے۔ ہم نے مذاکرات، سفارت کاری اور بات چیت کے تمام حربے آزما لئے، عالمی طاقتوں پر بھی لگائی گئیں امیدیں بر نہ آئیں۔ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔ یاد رہے فارسی کا معقولہ ہے کہ آزمائے ہوئوں کو آزمانا جہالت ہے، اب مغربی طاقتوں پر مزید تکیہ کرنا اپنے آپ اور کشمیریوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔ ہمت مرداں مدد ِ خدا۔ ہمارے بنیؐ کا فرمان ہے کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ غزوہ بدر کے واقعہ کو یاد کیجئے جب تین سو تیرہ نہتے مسلمانوں کی مختصر افرادی قوت نے ایک ہزار کے کفریہ جنگی ساز و ساماں سے لیس گھمنڈی لائو لشکر کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ اس طرح کے واقعات سے اسلامی تاریخیں بھری پڑی ہیں اور نہ ہی کوئی قفس فریاد سے کھبی ٹوٹا ہے!۔ ہم پر جہاد کی فرضیت تو اسی وقت ہو چکی تھی جب بھارت نے اقوام متحدہ کے فیصلے رائے شماری کو نظر انداز کر کے اسلامی ریاست کشمیر پر قبضہ جما لیا تھا دیر آید درست آید۔ ہم ایٹمی قوت ہیں اللہ پر یقین، غیبی مدد اور کامل بھروسہ کرتے ہوئے تیار رکھے گھوڑوں کے ساتھ شمشیر بکف ہو کر ان پر ٹوٹ پڑنا چاہیے۔ اللہ کے وعدے کے مطابق نصرت اہل ایمان کی ہوتی ہے۔ پوری قوم اور جری افواج پاکستان جذبہ ایمانی کے ساتھ مظلوم مجاہدین کی پشت پر ہمالیائی چٹان کی طرح کھڑی ہے۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ کسی بھی اقلیت کی آزادی کو اکثریت بندوق کی طاقت سے زیادہ دیر دبا نہیں سکی، قائد کے بقول کشمیر ہماری شہ رگ بھی ہے۔ بھارت کا غرور اور ہٹ دھرمی خاک میں ملانے کا وقت آ گیا، قران مجید کے مطابق ان سورمائوں کی گردنیں مارنے اور پور پور توڑنے کا وقت آن پہنچا۔ کفر اور طاغوتی طاقتوں سے دبنا اور مرعوب ہونا مسلمانوں کی روایت نہیں۔ پاکستان کی شہ رگ کو بھارتی جبرو استبداد اور شکنجے سے چھڑانے کا فیصلہ کن وقت آ چکا۔ اب احتجاج نہیں صرف اور صرف جہاد۔گھاس پھوس کھا کر پیٹ پر پتھر باندھ کر ایٹمی پاور اس لئے حاصل نہیں کی تھی کہ کشمیری بہن بھائیوں کو ان درندوںکے رحم و کرم پر چھوڑے رکھیں۔ مقتدر قوتیں مزید کشمیریوں کا خون بہے صبر آزما اوقات ختم کئے کشمیر کاز پر یکسو ہو کر فیصلہ کن فیصلے پر پہنچیں۔
کہہ رہا ہے داستان بے دردی ایّام کی
کوہ کے دامن میں ہے غم خانہ دہقان پیر
امتیاز یسین