حکمران زہر قاتل سے گریز کریں

تحریر : علی حسن
صوبہ پنجاب میں حال ہی میں ایک پولس چوکی انچارج سیف اللہ نیازی کو اس کے ذاتی ملازم نے سرکاری پستول سے گولی مار کر قتل کر دیا۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ مقتول انسپکٹر بدتمیز اور معمولی بات پر گالیاں دیتا تھا جس کی وجہ سے اس نے اسے قتل کر دیا۔ حیدرآباد میں ڈی ایس پی قاسم آباد فیض محمد دایو کے قتل کا مقدمہ پولیس اہلکار غلام قادر کی مدعیت میں گن مین آصف چانڈیو کے خلاف درج کرلیا گیا، مقدمہ میں انسداد دہشتگردی کی دفعہ بھی لگائی گئی ہے، ملزم کو پولیس نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا، عدالت نے ملزم آصف چانڈیو کو 7روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ حیدرآباد میں ڈی ایس پی قاسم آباد کو اس کے ہی گن مین نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ پولیس نے گن مین کو گرفتار کرلیا، قاتل گن مین کا کہنا ہے کہ ڈی ایس پی ڈیوٹی کے اوقات کار زیادہ تھے جس پر غصے میں آکر اس نے ڈی ایس پی کو قتل کر دیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق گن مین آصف چانڈیو کی ڈی ایس پی سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تھی، ڈی ایس پی اپنی موبائل کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تو گن مین نے فائرنگ کر دی۔ گن مین آصف چانڈیو کو پولیس نے اسلحہ سمیت گرفتار کرلیا۔ مقتول ڈی ایس پی فیض محمد دایو کا تعلق جیکب آباد سے تھا اور
چند ماہ قبل ہی ان کا تبادلہ حیدرآباد ہوا تھا۔ صوبہ سندھ میں ہی چند ماہ قبل ایک ایس ایچ او انسپکٹر محمد شریف کھوسو نے سول جج و جوڈیشنل مجسٹریٹ نمبر8کے جج عبدالمومن کلہوڑو کے عدالتی چیمبر میں فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایس ایچ او کا داماد صبور چانڈیو گولی لگنے سے زخمی ہوگیا، زخمی کو فوری طور پر طبی امداد کے لئے سول اسپتال منتقل کیا گیا۔ ایس ایچ او کی بیٹی نے صبور چانڈیو سے پسند کی شادی کی تھی اور گھریلو جھگڑے کے باعث نوبت خلع تک پہنچ گئی تھی، جس کی سول جج و جوڈیشنل مجسٹریٹ نمبر8کی عدالت میں سماعت تھی، دوران سماعت میاں بیوی میں تصفیہ ہوگیا جس پر ایس ایچ او مشتعل ہوگیا اور اس نے اپنے داماد کو فائرنگ کرکے زخمی کر دیا۔ اس طرح کے واقعات محکمہ پولس میں معمول بن گئی ہیں لیکن اعلیٰ حکام ایسے واقعات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتے ہیں تاکہ پولس فورس جیسی طاقت میں اس قسم کے واقعات کو سدباب کیا جا سکے۔ یہ تو گنتی کے واقعات ہیں لیکن عملا ایسا نہیں ہے۔ ایسے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے جسے نظر انداز کرنا کسی بڑے خطرے کو دعوت دینا ہے۔
برصغیر میں جنگ آزادی کے فوری بعد پولیس ایکٹ نافذ کیا گیا تھا تاکہ پولس کے ذریعے شہریوں پر قابو پایا جا سکے۔ عجیب اتفاق ہے کہ پولس ایکٹ میں کوئی قابل عمل تبدیلی کسی صوبہ میں پیدا نہیں کی جا سکی۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ محکمہ کے ملازمین میں ہر طرح کی لاقانونیت کا رجحان اس قدر عام ہو گیا ہے کہ حکام کا اپنے ماتحت ملازمین پر عملا کسی قسم کا اختیار ہی نہیں رہا ہے۔ تھانوں میں پر تشدد واقعات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ رشوت ستانی کا ماحول عروج پر ہے۔ حکمرانوں اور حکام جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بے خبر نہیں ہیں لیکن اکثر صرف نظر کرنے کا رجحان گھر کر گیا ہے۔ وہ قانون کو نہیں بلکہ پولس ملازمین کو اپنے اختیار کو منبع تصور کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے حکمران پولس کو ملک بھر میں اپنے ذاتی ملازمین تصور کر کے کام لیتے ہیں، جس کی وجہ سے پولس والوں کے پر نکل جاتے ہیں اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو گئے ہیں۔ محکمہ پولس میں بھرتیا ں کسی ضابطہ پر عمل کئے بغیر کی جاتی ہیں ۔ جو بھی ضابطہ اور قوانین موجود ہیں ان پر ان کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ محکمہ پولس قانون کے مطابق چلے گا اگر اعلیٰ افسر قوانین پر عمل کریں۔ یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ پولس افسران کی بھرتی اور تقرری کے دوران قوانین کو صرف نظر کیا جاتا ہے۔ انگریز کے دور میں ہر بھرتی سے قبل بھرتی کے خواہش مند شخص کے مکمل تفصیلات کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کے خاندانوں کے چھان پھٹک کی جاتی تھی کہ ان کا کسی طور پر جرم سے تعلق تو نہیں رہا ہے۔ مقابلوں کے امتحانات کے سلسلے میں امیدواروں کے بارے میں تحقیقات بہت سخت ہوا کرتی تھی اور وہ لازمی ہوا کرتی تھی۔ اس بھی کہیں زیادہ ہی سخت ہوا کرتے تھے۔ اس معاملے میں اس دور کا حکمران طبقہ ہمیشہ مداخلت سے باز رہتا تھا۔ بات نکلی ہے تو کر لی جائے کہ سرکاری ملازمتیں بھی جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں بن گئی ہیں جہاں وہ پھلتے پھولتے ہیں۔ ایسی صورت میں قانون پر عمل درآمد کہاں اور کیوں ہو سکے گا۔ حکمران لوگ اپنے آپ کو قانون سے بالا تر تصور کرتے ہوئے قوانین کی کتابوں کا جائزہ لئے بغیر زبانی احکامات دے دیتے ہیں اور ان کے ماتحت کسی سوال کے بغیر آنکھیں بند کر کے بوجوہ عمل کرتے ہیں۔ ماتحت اہل کار ذاتی مالی فوائد کے چکر میں کسی چوں چراں احکامات پر عمل در آمد کرتے ہیں۔ ان میں خود سری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے افسر کے اوپر جو افسر ہیں انہیں ان سے رعایت مل سکتی ہے۔
صرف محکمہ پولس ہی لاقانونیت کا شکار نہیں ہے بلکہ تمام محکموں میں دیمک لگ چکی ہے۔ رشوت ستانی کے علاوہ حکم عدولی نے تمام سرکاری محکموں کو عوام کے لئے ناسور بنا دیا ہے۔ حکمرانوں کو عمل ہی نہیں ہے کہ عوام کو کسی پریشانی اور تکلیف سے گزارنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو اس وقت اندازہ ہو جائے گا جب وہ بھیس بدل کر جائزہ لینے خود نکلیں گے۔ اس ملک کو انتظامی محکموں کو نئے سرے سے آراستہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس ملک پر سیاست کرنے والوں کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہئے کہ لاقانونیت ان کی حکمرانی کے لئے زیر قاتل ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ حکمران اپنا وقت گزارنے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ملک میں حالات کو بہتر کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے کام کرنے کی بجائے ان کا زیادہ تر وقت زبانی کلامی میں گزر جاتا ہے۔