پاکستان

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے دوسری عدالت سے جج لانے کے معاملے پر ججز کا چیف جسٹس کو خط

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ملک کی کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج لانے کی ممکنہ کوشش پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 7 ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا ایک اور مبینہ خط سامنے آگیا ہے جس میں دوسری ہائی کورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس بنانے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمد جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو خط لکھا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں دوسری ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج تعینات کرنے کی خبریں رپورٹ ہوئی ہیں، بار ایسوسی اِیشنز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے ایک جج کو ٹرانسفر کیا جانا ہے، اس کے بعد ٹرانسفر کیے گیے جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر زیر غور لایا جائے گا۔

خط کے مطابق سندھ ہائی کورٹ سے بھی ایک جج کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کی تجویز زیر غور ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ دوسری ہائی کورٹ سے جج لانے کے لیے اس کی وجوہات دینا اور بامعنی مشاورت بھی ضروری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کی نسبت لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا کیسز کی کہیں زیادہ بلکہ 2 لاکھ تک ہے۔

ججز نے اپنے خط میں سوال اٹھایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری ججز کی سنیارٹی کیسے تبدیل ہو سکتی ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہی 3 سینئر ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس بنایا جائے، کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج، چیف جسٹس بنانے کے لیے نا لایا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں ججز کے ٹرانسفر کے طریقہ کار کو بھی خط میں زیر بحث لایا گیا ہے جس کے مطابق ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کی تبادلے کا عمل آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوتا ہے، مگر یہ صدر مملکت کی چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائی کورٹ کے ججز سے مشاورت کے بعد ممکن ہے۔

خط میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ سے جج اگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو وہ آئین کے مطابق چیف جسٹس نہیں بن سکتا، جج کا حلف اس ہائی کورٹ کے لیے ہوتا ہے جس میں وہ کام شروع کرے گا، ٹرانسفر ہونے والے جج کو آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں کام شروع کرنے سے پہلے نیا حلف اٹھانا پڑے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ٹرانسفر ہونے والے جج کی سینیارٹی اس نئے حلف کے مطابق طے کی جائے گی۔

ججز کے خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہے کہ سینیارٹی کا تعین متعلقہ ہائیکورٹ میں حلف لینے کے دن سے کیا جائے گا، لاہور ہائی کورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہو گا۔

ججز خط میں کہا گیا کہ آئین کے مطابق ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اسی ہائی کورٹ کے 3 سینئر ججز میں سے تعینات کیا جائے گا. کسی اور ہائی کورٹ سے سینیارٹی میں نچلے درجے کے جج کو دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کر کے چیف جسٹس کے لیے زیرغور لانا آئین کے مقصد کو شکست دینے کے مترادف ہے۔

اس میں کہا گیا کہ آئین پاکستان میں فیڈرل جوڈیشل سروس کا کوئی تصور موجود نہیں اور تمام ہائی کورٹس آزاد اور خود مختار ہیں، ہائی کورٹ میں جو ججز تعینات کیے جاتے ہیں وہ صرف اس مخصوص صوبے کی ہائی کورٹ کے لیے حلف لیتے ہیں۔

ججز خط کے مطابق 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان میں سیاسی جمہوری حکومتوں کے ادوار میں آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہائیکورٹ کے مستقل جج کی تعیناتی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

جواب دیں

Back to top button