عظیم باکسر محمد علی کی اسلام دوستی

چوہدری راحیل جہانگیر
دنیا کے عظیم باکسر محمد علی کی طرف سے 1964ء میں اسلام قبول کرنے کے اعلان نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ وہ اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ وہ باکسنگ کا عالمی چیمپئن بن چکا تھا۔ 1960ء کے روم اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیت کر وہ پہلے ہی شہرت کی بلندیوں کو چھو چکا تھا۔ محمد علی 1961ء میں اسلامک سینٹر کے دورے شروع کر چکا تھا جہاں وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کر رہا تھا۔
اس نے بطور کیسیس مارسلین کلے کے اپنے ماضی کو دفن کرتے ہوئے اسلامی نام محمد علی کو اختیار کرکے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ اسلام قبول کرتے ہی اس نے دین اسلام کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اپنے محل نما گھر کو قرآن کی تعلیم کا مرکز اور مسجد میں تبدیل کر دیا۔ شگاگو میں سب سے بڑی مسجد کی تعمیر شروع کردی۔ اسلامی کتب خرید کر امریکی لوگوں میں تقسیم کیں۔ اس نے اپنی سالانہ آمدنی جو کہ 20کروڑ ڈالر پر مشتمل تھی، اسلام کیلئے وقف کر دی۔ اپنی بیوی بچوں کا اس آمدنی میں سے حصہ نہیں رکھا۔ محمد علی نے اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا تو اللہ پاک نے اسے بہت بڑی کامیابی؟ سے نوازا۔ بیس لاکھ امریکیوں نے محمد علی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا۔ اس نے 1972ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔
محمد علی نماز پڑھے بغیر باکسنگ رنگ میں نہیں اترتے تھے۔ انہوں نے چار شادیاں کیں اپنے بچوں کو اسلام تعلیمات دیں اور ان کے اسلامی نام رکھے۔ ان کے بچوں کے نام لیلی علی، اسد امین، مریم علی، حنا علی، رشیدہ علی، جمیلہ علی، مایا علی، خلیہ علی اور محمد علی جونیئر ہیں۔
محمد علی انسانوں سے حسنِ سلوک کرنے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے والے انسان تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں فلاحی ادارے قائم کیے تھے۔ وہ انسان اور اِنسانیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی امریکہ کی ویت نام میں جنگ کے موقع پر انہوں نے جنگ میں حصہ لینے سے انگار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کسی انسان کا خون نہیں بہا سکتا۔ اس انکار پر ان کو عالمی چیمپئن کے اعزاز سے محروم کرتے ہوئے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی، جو بعد ازاں سپریم کورٹ نے ختم کردی۔ امریکہ میں سیاہ فام باشندوں سے نسلی امتیاز روا رکھا جاتا تھا۔ محمد علی نیایک ہوٹل میں سیاہ فام ہونے کی بنا پر کھانا کھانے کی اجازت نہ ملنے پر روم اولمپکس میں ملنے والا سونے کا تمغہ احتجاجاً دریا میں پھینک دیا تھا۔ محمد علی نے باکسنگ میں جو نام کمایا وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا۔ وہ 1964ء ، 1974ء اور 1978ء میں باکسنگ کے عالمی چیمپئن بنے۔
اسلام میں داخل ہونے کے بعد وہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان کی جیب میں ماچس کی ڈبیہ ہر وقت موجود ہوتی تھی۔ حالانکہ وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ جب کبھی دینی معاملات میں سستی محسوس ہوتی تو ایک تیلی جلا کر اپنے ہاتھ کے قریب کر دیتے۔ تپش محسوس ہونے پر ہاتھ پیچھے کھینچ لیتے اور کہتے ’’ محمد علی تم سے یہ معمولی آگ برداشت نہیں ہوتی، جہنم کی آگ تو بہت خوفناک ہے۔ وہ کیسے برداشت کرو گے‘‘۔
جارج فورمین نامی باکسر سے محمد علی کی نہیں بنتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ محمد علی کو چڑانے کیلئے اسے محمد علی کے نام سے پکارنے کی بجائے اس کے پرانے نام مارسلیس کلے کے نام سے بلاتا تھا جس کی وجہ سے آف دی رنگ ان کے درمیان کئی بار لڑائی ہو چکی تھی۔ محمد علی اس انتظار میں تھا کہ اسے موقع ملے تو جارج کو ایسا کرنے پر سبق سکھائے۔ جلد ہی اس کو قدرت نے موقع دے دیا۔ دونوں باکسرز کے فائیٹ طے ہوگئی۔ جیسے ہی فائیٹ شروع ہوئی محمد علی نے جارج کو مکوں پر رکھ لیا۔ محمد علی اس کو مکے مارتا جاتا اور ساتھ میں کہتا، بتائو میرا نام کیا ہے؟، دنیا حیرت زدہ تھی ایسا کیوں ہو رہاہے؟۔ محمد علی اپنی باکسنگ ٹیکنیک سے ہٹ کر کیوں کھیل رہا ہے؟۔ محمد علی باکسنگ مقابلوں میں ہمیشہ پہلے مخالف باکسر کو تھکاتا تھا، بعد میں پنچ مار کر ناک آئوٹ کرتا تھا۔ یہاں معاملہ ہی الٹ تھا۔ جب جارج رنگ میں گرا تب بھی محمد علی اس سے یہی سوال کیے جا رہا تھا، بتائو میرا نام کیا ہے؟۔ جارج نے جواب دیا، محمد علی، تب کہیں جاکر اس کی جان چھوٹی۔
شگاگو میں ایک تنظیم ہر سال نیشنل ڈے کے موقع پر زمین پر سٹار بنا کر اپنے نیشنل ہیروز کا نام ان ستاروں میں لکھتی ہے اور اس کی نمائش ہوتی ہے۔ لاکھوں لوگ نمائش میں شامل ہوکر اپنے نیشنل ہیروز کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہر اتھلیٹ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا نام سٹار پر لکھا جائے۔ محمد علی کو منتظمین کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ آپ کا نام آنرز لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ محمد علی نے منتظمین کو منع کر دیا کہ اس کا نام لسٹ میں شامل نہ کیا جائے۔ منتظمین نے جب وضاحت چاہی تو محمد علی نے بتایا ’’ میرے پیارے نبیؐ کا نام زمین پر لکھا جائے، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر آپ نے میرا نام لسٹ میں شامل کرنا ہے تو پھر آپ کو میرے نام کا سٹار دیوار پر اونچی جگہ لگانا پڑے گا‘‘۔ منتظمین نے محمد علی کی بات مان لی۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار کسی نام کا ستارا زمین پر لگانے کی بجائے دیوار پر لگایا گیا۔ محمد علی 74سال کی عمر میں 3جون 2016ء کو اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔