
سی ایم رضوان
یہ بات جولائی 2017ء کی ہے جب ملکی حالات اور معاملات تو اتنے تسلی بخش نہ تھے لیکن فیک نیوز کی بھرمار اور ملکی سیاست دانوں کی جانب سے جھوٹے اور بلف بازی پر مبنی بیانات کی یلغار نہیں ہوا کرتی تھی ملک میں البتہ عمران پراجیکٹ لانچ کر دیا گیا تھا عدالتوں سے مخصوص فیصلے جاری ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اسی سلسلے میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس کے معاملے میں اپنے متفقہ فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر 20اپریل کے فیصلے کے تحت قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد 21جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو 27جولائی 2017ء کو سنایا گیا۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے جس میں پاناما لیکس کے معاملے پر ابتدائی مقدمہ سننے والے پانچوں جج صاحبان شامل تھے نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 184کے تحت دائر درخواستوں پر اپنے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف 2013ء میں دائر کیے گئے کاغذات نامزدگی میں ایف زیڈ ای نامی کمپنی میں اپنے اثاثے ظاہر نہ کر کے صادق اور امین نہیں رہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ صادق اور امین نہ رہنے کی وجہ سے الیکشن کمیشن فوری طور پر بطور ممبر پارلیمان ان کی رکنیت کے خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نواز شریف کی قومی اسمبلی رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کی لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120سے رکنیت ختم کر دی گئی ہے اور یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے نیب کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ چھ ہفتے کے اندر نواز شریف اور ان کے بچوں مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی مہیا مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرے اور چھ ماہ میں ان پر کارروائی مکمل کی جائے۔ عدالت نے نواز شریف اور حسن اور حسین نواز کے خلاف چار جبکہ مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن ( ر) صفدر اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ایک ایک معاملے میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ( ر) صفدر کے خلاف ایک ایک معاملے میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ عدالتی فیصلے کے چیدہ نکات میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ قومی احتساب بیورو سپریم کورٹ فیصلے کی تاریخ اٹھائیس جولائی 2017ء سے چھ ہفتے کے اندر جے آئی ٹی، فیڈرل انویسٹی گیشن اور نیب کے پاس پہلے سے موجود مواد کی بنیاد پر نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔ دوسرا یہ کہ نیب نواز شریف اور اس کے خاندان کے خلاف عدالتی کارروائی میں شیخ سعید، موسیٰ غنی، جاوید کیانی اور سعید احمد کو بھی شامل کرے۔ نیز نیب ان افراد کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے اگر ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی۔ تیسرا یہ کہ احتساب عدالت نیب کی جانب سے ریفرنس فائل کیے جانے کی تاریخ کے چھ ماہ کے اندر ان ریفرنسز کا فیصلہ کرے۔ اگر مدعا علیہان کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی دستاویزات جھوٹی، جعلی اور من گھڑت
ثابت ہوں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ نواز شریف نے یو اے ای میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو دو ہزار تیرہ میں اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب عوامی نمائندگی ایکٹ 1976کے سیکشن 99کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہٰذا وہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976کے سیکشن 99اور آرٹیکل 62( اے) کی روشنی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر نااہل ہیں۔ یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفیکیشن جاری کرے۔ چیف جسٹس سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سپریم کے ایک جج کو اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی نگرانی کے لئے تعینات کیا جائے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد نواز دور میں وزیر اعظم ہائوس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں عدالتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسلم لیگ ن کے ساتھ ناانصافی سے تعبیر کیا گیا۔ مسلم لیگ ( ن) کے ترجمان کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے تھے اور وفاقی کابینہ تحلیل ہو گئی۔ اس حوالے سے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ صادق اور امین کی کہانی وہاں تک جانی چاہیے جہاں سے فیصلے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی سبکدوشی کے بعد نئے وزیراعظم کی حلف برداری تک قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔سابق وزیرِ مملکت برائے اطلا عا ت مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ آج بظاہر ہم ایک فیصلہ ضرور ہارے ہیں لیکن اگر پاکستان کے سیاسی جمہوری پس منظر میں دیکھا جائے تو آج کے فیصلے سے حیرانگی نہیں ہوئی افسوس ضرور ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف عوام کی عدالت سے ہمیشہ سرخرو ہوئے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاست میں اور دوسرے طریقوں سے جب جب نواز شریف کو پاکستان کے سیاسی منظر سے ہٹایا گیا، تاریخ اور پاکستانی عوام پہلے سے زیادہ تعداد میں انہیں واپس پارلیمان میں لے کر آئے۔ فیصلے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ عمران خان محض شو بوائے ہیں۔ ہمارے ساتھ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ عمران خان آپ بغلیں نہ بجائی چند دنوں میں آپ بغلیں جھانکیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ صادق اور امین کی کہانی اب چلے گی۔ یہ صرف سیاستدانوں تک نہ رہے بلکہ وہاں تک جانی چاہیے جہاں سے فیصلے ہوتے ہیں۔ سعد رفیق کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے کارکنوں کو کہتے ہیں کہ تحمل سے کام لیں۔ اداروں کا تقدس قائم رہے۔ تب ن لیگ کی جانب سے اداروں کے تقدس کا خیال بھی رکھا گیا لیکن آج ایک محب وطن اور اصول پسند آرمی چیف پر ذاتی حملوں سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ہینڈلرز اور صحافی ملکی مفادات کے خلاف بیان بازی سے گریز نہیں کر رہے۔
اب تازہ صورت حال یہ ہے کہ احتساب عدالت نے 190ملین پائونڈز کیس میں عمران خان کو 14سال قید 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس کے فیصلے سے قبل سزاں کی ’ بریکنگ نیوز‘ بھی ایک تازہ المیہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کا علم صحافیوں کو پہلے ہو جاتا ہے اور ان فیک خبروں کو بنیاد بنا کر اداروں اور ملکی وقار کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔ اداروں کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔
فیک نیوز اور بلف بازی کا ایک تازہ نمونہ ملاحظہ ہو کہ 190ملین پائونڈ ریفرنس میں سزا ملنے کے بعد ردعمل دیتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ حالانکہ وہ خود اس موقع مکمل گھبرانے ہوئے تھے۔ اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ کا ایسا فیصلہ ہے، جس کا پہلے ہی سب کو پتا تھا، چاہے فیصلے کی تاخیر ہو یا سزا کی بات سب پہلے ہی میڈیا پر آ جاتا ہے، عدالتی تاریخ میں ایسا مذاق بھی کبھی نہیں دیکھا گیا، جس نے فیصلہ جج کو لکھ کر بھیجا ہے اسی نے میڈیا کو بھی لیک کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا، میں رہوں گا لیکن اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ حالانکہ ان سیاسی پرورش و پرداخت ہی آمریت کے جھولے میں ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہمارا عزم حقیقی آزادی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ہے حالانکہ وہ عملاً اس کے برعکس کوشش کرتے ہیں، ڈیل کے متلاشی کپتان نے بلف بازی کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کوئی ڈیل نہیں کروں گا اور تمام جھوٹے کیسز کا سامنا کروں گا۔ عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر قوم کو کہتا ہوں کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھیں، یحییٰ خان نے بھی ملک کو تباہ کیا اور آج بھی ڈکٹیٹر اپنی آمریت بچانے کے لئے اور اپنی ذات کے فائدے کے لئے یہ سب کر رہے ہیں اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ایک اور جھوٹ بولنے ہوتے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ آج القادر ٹرسٹ کے کالے فیصلے کے بعد عدلیہ نے اپنی ساکھ مزید تباہ کر دی، جو جج آمریت کو سپورٹ کرتے ہیں اور اشاروں پر چلتے ہیں، انہیں نوازا جاتا ہے۔ پرانا راگ الاپتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس تو دراصل نواز شریف اور ان کے بیٹے کے خلاف ہونا چاہئے تھا، جنہوں نے برطانیہ میں اپنی 9ارب کی پراپرٹی ملک ریاض کو 18ارب میں بیچی، سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ ان کے پاس 9ارب کہاں سے آئے؟ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں۔ خائن خان نے الزام عائد کیا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ مل کر حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی۔ جھوٹ بولنے والے خان نے کہا کہ القادر یونیورسٹی سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا، حکومت کو بھی نقصان نہیں ہوا۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ القادر یونیورسٹی شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی طرح ہی عوام کی لئے ایک مفت فلاحی ادارہ ہے، جہاں طلبہ سیرت النبیؐ (باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، القادر یونیورسٹی سے مجھے یا بشرٰی بی بی کو ایک ٹکے کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور حکومت کو ایک ٹکے کا بھی نقصان نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کی زمین بھی واپس لے لی گئی، جس سے صرف غریب طلبہ کا نقصان ہو گا جو سیرت النبی ٔ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ کا ایسا فیصلہ ہے، جس کا پہلے ہی سب کو پتا تھا، چاہے فیصلے کی تاخیر ہو یا سزا کی بات سب پہلے ہی میڈیا پر آ جاتا ہے، عدالتی تاریخ میں ایسا مذاق کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ایک اور جھوٹ انہوں نے یہ کہا کہ میری اہلیہ ایک گھریلو خاتون ہیں، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، بشریٰ بی بی کو صرف اس لئے سزا دی گئی تاکہ مجھے تکلیف پہنچا کر مجھ پر دبا ڈالا جائے، ان پر پہلے بھی گھٹیا کیس بنائے گئے لیکن بشریٰ بی بی نے ہمیشہ اسے اللہ کا امتحان سمجھ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ میرے کاز کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں اگر 9مئی اور 26نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، بددیانت لوگ کبھی نیوٹرل امپائرز کو نہیں آنے دیتے، حکومت جوڈیشل کمیشن کے مطالبے سے اسی لئے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔ اس سب کے برعکس 190ملین پائونڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے ک بانی اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی ( این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے۔ 50ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹان لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔ یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لئے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی ( این سی اے) کے ذریعے 140ملین پائونڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔ بانی پی ٹی پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140ملین پائونڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹان کراچی کے 450ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔ اس دروغ گوئی، کرپشن اور خیانت پر ان کے خلاف بالکل درست فیصلہ آیا جس پر احتساب عدالت کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے اور جھوٹوں پر جتنی بھی لعنت بھیجی جائے وہ بھی کم ہے۔