Column

قطع نظر رنگ و مذہب سب کو سالِ نو مبارک ہو

تحریر : نذیر احمد سندھو
سال آتے رہتے ہیں، جاتے رہتے ہیں۔ ماہ و سال کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ جیسا 2024ء ویسا ہی 2025ء ہو گا، عام آدمی کی زندگی پر سالوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عام آدمی اچھے دنوں کی یاد میں سالوں گزار دیتا ہے مگر اچھے دن نہیں آتے۔
علامہ اقبالؒ سے روایت ہے وہ ایک پہنچے ہوئے پیر کے آستانے میں پیر صاحب کے پاس بیٹھے تھے، ایک میاں بیوی اپنی بار ی پر پیر صاحب کے کمرے میں آئے اور گڑگڑاتے ہوئے پائوں میں گر گئے پیر صاحب کے پوچھنے پر بتانے لگے پیر صاحب بہت بُرے دن ہیں دعا کرو اچھے دن آ جائیں قرض بہت چڑھ گیا ہے، پیر صاحب نے خاتون کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا گھبرائو نہیں میں دعا کرونگا اللہ بھلی کریگا اچھے دن آ جائیں گے دونوں کی آنکھوں میں پیر کی بات سن کر خوشی سے آنسو گرنے لگے۔ میرا ایک ملحد دوست اکثر کہا کرتا ہے مذاہب کی صرف ایک ہی خصوصیت ہے، مذہب امید دلاتا ہے جبکہ الحاد امید بھی چھین لیتا ہے۔ علامہ صاحب فرماتے ہیں جاتے ہوئے میاں بیوی نے درجنوں گھانٹھیں کھول کر ( سوا روپیہ) ایک روپیہ چار آنے نکال کر پیر صاحب کو نذرانہ پیش کر دیا اور پیر صاحب نے نہایت ڈھٹائی سے سوا روپیہ قالین کے نیچے دیگر پیسوں کے ساتھ جمع کر لیا اور علامہ صاحب فرماتے ہیں میں سوچ میں پڑ گیا لو قرض اور بڑھ گیا۔ قارئین آپ سوا روپے کے نذرانے اور علامہؒ کے قرض پر ضرور ہنسے ہونگے۔ نہیں صاحب ہنسنے والی کوئی بات نہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اچھی نسل کی بھینس پانچ روپے میں آجاتی تھی اور سوا روپے میں وہ بکری آ جاتی تھی جو آج پچاس ہزار میں بھی بمشکل ملے، تو یوں سمجھو مقروض جوڑے نے پیر صاحب کو آج کے پچاس ہزار بطور نذرانہ پیش کر دیئے۔ اگر آپ کی تنخواہ پچاس ہزار ہے اور آپ نے پیر صاحب کو نذرانہ میں پچاس ہزار پیش کر دئیے تو پھر سوچو قرض چڑھا کہ نہیں چڑھا خود پر گزرے تو سمجھ آوے۔
ہم پاکستانیوں پر 75سال سے زبردستی کے قرض خواہ ہیں جنہوں نے ہماری زندگیوں پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے اور عمران خان اس جبری قبضے کو چھڑانے کی مظلومانہ کوشش کر رہا ہے ، کامیاب ہوتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ وقت ہی کریگا ہم میں سے تو کوئی پیش گوئی بھی نہیں کر سکتا۔ دو جنوری کو پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی اور دھکے کی عوامی حکومت جن کی پشت پر طاقتوروں کا ہاتھ ہے مذاکرات کا آغاز کیا۔ دوسری طرف بڑے راز دارانہ انداز میں خصوصی سرمایہ کاری کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔ اس اجلاس سے پہلے علی امین گنڈا پور اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے درمیان الگ سے مذاکرات ہوئے، جن کی روشنی میں سرمایہ کاری کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ اس کمیٹی کے اجلاس کی وجہ سے پی ٹی آئی اور حکومتی مذاکرات کا وقت گیارہ بجے سے تین بجے کر دیا گیا۔ اجلاس میں گونگلوئوں سے مٹی جھاڑی گئی، نہ کچھ لیا نہ کچھ دیا، گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق نشستن برخاستن کا معاملہ ہی چلتا رہا۔
خبر ہے 19قیدیوں کی سزا معاف کر دی گئی ہے۔ کوئی معافی شافی نہیں ان کو سزا ہی دو سال ہوئی تھی اور وہ سزا جیل قواعد کے مطابق پوری کر چکے تھے۔ ان کی درخواستوں کا قانونی نقطہ یہی تھا کہ وہ سزا پوری کر چکے ہیں لہذا انہیں رہا کیا جائے، درمیان میں لفظ معافی کا وکلا نے یقینا ڈالا ہو گا، لہذا ڈی جی آئی ایس پی آر نے اسی نقطے پر پریس کانفرنس کرکے اخلاقیاتی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگر بے سود عوام اس کو نہیں مانتے۔ اب دیکھنا ہے سورج کی شعائیں کس طرف سے روشنی ڈالتی ہیں۔ گنڈا پور کی ملاقات بشریٰ بی بی سے ہوئی اور بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ کیس کی وجہ سے عدالت میں حاضری تھی۔ یقینا کچھ پیغامات کی رسانی ہوئی۔ حیرت ہے پی ٹی آئی کمیٹی نے پانچ شرائط میں سے 9مئی26نومبر کے معاملات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ موخر کر دیا گیا تھا، دوبارہ شامل کر دیا ہے اور 26ترمیم کی واپسی، جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی، مینڈیٹ کی واپسی یا نئے الیکشن کی تاریخ جیسی شرائط واپس لے لی گئیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے یہ محسن نقوی اور ’’ حاکم اعلیٰ‘‘ کی گنڈا پور سے ملاقاتوں کا نتیجہ ہے یا الگ سے سیاسی سکورنگ۔ کچھ نہ کچھ تھیلے سے باہر آ سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button